آرٹیفشل انٹیلیجنس چھینک سے کرونا کی تشخیص کرے گی

تحقیقکار برائن سبیرانا سمجھتی ہیں کہ اس گروپ کے تشخیصی آلے کے موثر نفاذ سے وباء کے پھیلاؤ کو کم کیا جاسکتا ہے

اب صرف کھانسی کے طریقے سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس شخص کو کرونا ہے اور کس شخص کو معمولی کھانسی ہے۔ یہ کام کسی انسانی کان کے لیے ناممکن ہے مگر یہ کھانسی ایک الگوردم کے ذریعے سنی اور اب سمجھی بھی جاسکتی ہے۔

محققین نے ہزاروں افراد کے بولنے اور کھانسے کو ریکارڈ کیا اور اُن نمونوں کے بارے میں آرٹیفشل انٹیلیجنس کوبتایا کے کس کو کرونا تھا اور کس کو نہیں تھا۔ اِس مشق کے بعد آرٹیفیشل انٹیلیجنس کرونا کی نشاندہی 98.5 فیصد تک درستگی کے ساتھ کر سکتا ہے۔

یہاں تک کہ جن افراد میں کرونا کی تشخیص ہوئی لیکن اُن میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں اے آئی کے ذریعے ان افراد کی بھی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔نیورل نیٹ ورک ایک ایسا الگوردم ہے جو کہ انسانی دماغ کی طرح کام کرتا ہے۔ اس الگوردم کو مختلف آوازیں سمجھنے اور پہچاننے کی تربیت دی گئی ہے۔

ایسے ہی مذید 2 نیورل نیٹ ورک کو تربیت دی گئی کہ وہ انسانی آواز سے ظاہر ہونے والے جذبات جیسے خوشی، غصہ اور شستگی  اور اس کے علاوہ پھیپڑوں اور سانس کی کارکردگی میں آنے والی تبدیلیوں کا بھی پتہ لگا سکے۔

محققین نے 70 ہزار سے زیادہ ریکارڈنگز اور 2 لاکھ کھانسی کے ریکارڈڈ نمونے جمع کیے تھے۔ ان میں تقریبا 2 ہزار پانچ سو نمونے تصدیق شدہ کرونا مریضوں کے تھے۔ یہ تحقیق کے لیے جمع ہونے والا اب تک کا بڑا ڈیٹا سیٹ ہے۔ اس تحقیق میں سب سے زیادہ افراد کو شامل کیا گیا ہے۔

جبکہ ان نمونوں میں ایک ہزار پانچ سو ماڈل کو تربیت دینے کے لئے استعمال کیے گئے تھے۔ تاہم ماڈل کی درستگی کو جانچنے کے لئے مزید ہزار نمونوں کا انتخاب کیا گیا۔

عالمی وباء کرونا سے قبل محققین اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے الزائمر کے مرض کی علامتوں کا پتہ لگارہے تھے۔ الزائمزانسانی یاداشت کو متاثر کرنے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اس سے بولنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔

محققین نے الگوردم ، الزائمز کی نشاندہی کرنے والے ماڈل کے ساتھ کرونا کی تشخیص کرنے والے ماڈل کو بھی یکجا کردیا۔ جس سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

تحقیق کے معاون مصنف برائن سبیرانا کا کہنا ہے کہ ”اگر ہر کوئی کلاس روم، فیکٹری یا کسی ریستوران میں جانے سے پہلے اسے استعمال کرے تو اس گروپ کے تشخیصی آلے کے موثر نفاذ سے وباء کے پھیلاؤ کو کم کیا جاسکتا ہے۔‘‘

متعلقہ تحاریر