نشتر اسپتال ملتان میں لاشوں کی بے حرمتی کا انکشاف، 500 لاشوں کے باقیات برآمد

اسپتال کی چھت سے لاشیں ملنے کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی ٹیم تشکیل۔لاشیں پولیس نے پوسٹ مارٹم کیلیے دی تھیں، بدبودار ہونے کی وجہ سے لاشوں کو فریزر میں نہیں رکھا جاسکتا تھا،سڑنے کے بعد ہڈیاں نکالنے کیلیے لاشوں کو چھت پر رکھا جاتا ہے بعد میں دفن کردیا جاتا ہے، سربراہ اٹانومی ڈیپارٹمنٹ

نشتر اسپتال ملتان میں لاوارث لاشوں کی بے حرمتی اور لاشیں چھٹ پر پھینکنے  کا انکشاف ہوا ہے۔اسپتال سے 500 لاشوں کی باقیات برآمد ہوگئی۔

محکمہ صحت جنوبی پنجاب نے جمعرات کو نشتر ہسپتال کی چھت سے لاشیں ملنے کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی ٹیم تشکیل دے دی۔

یہ بھی پڑھیے

جناح اسپتال کراچی کی ایمرجنسی میں ایکسرے مشین خراب، مریض رُل گئے

سردیوں کی آمد سے قبل ہی لاہور دنیا کے 5 آلودہ ترین شہروں میں شامل

اس سے قبل وزیراعلیٰ کے مشیر چوہدری زمان گجر نے اسپتال کا دورہ کیا ۔اس موقع پر مردہ خانے کی چھت سے کئی مسخ شدہ لاشیں ملیں۔ انہوں نے لاوارث لاشوں کی تدفین کا حکم دیا اور محکمہ صحت کے حکام کو معاملے میں ملوث ملازمین کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی۔

ایڈیشنل چیف سیکرہٹری   کیپٹن(ر) ثاقب ظفر نے سیکریٹری ا سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر مزمل بشیر کو معاملے کا جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے ۔ انہوں نے معاملے کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی ٹیم بھی تشکیل دی۔

مزمل بشیر کو  کمیٹی کا کنوینر مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مسعود رؤف ہراج، اسسٹنٹ پروفیسر اناٹومی ڈاکٹر شفیق اللہ چوہدری، سینئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر محمد عرفان ارشد اور ڈپٹی کمشنر اور سٹی پولیس   کا ایک ایک نمائندہ شامل ہے۔   کمیٹی تین دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے انگریزی روزنامہ ڈان کو بتایا کہ طلبہ کی جانب سے لاشوں کو طبی تجربات کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ لاشوں کو پہلے ہی تجربے میں استعمال کیا گیا تھا اور انہیں مزید طبی استعمال کے لیے ہڈیوں اور کھوپڑیوں کو نکالنے کے لیے چھت پر رکھا گیا تھا۔

ادھر وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی کے صاحبزادے مونس الہٰی نے  ٹوئٹر مینا گبینا کے لاشوں کی بے حرمتی سے متعلق ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے نشتر اسپتال کے شعبہ اناٹومی کے سربراہ کا ابتدائی بیان شیئر کردیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ وہ نامعلوم لاشیں ہیں جنہیں پولیس نے پوسٹ مارٹم کے لیے نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان کے حوالے کیا اور ضرورت پڑنے پر اسے ایم بی بی ایس کے طلبہ کے  تدریسی مقصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ لاشیں بوسیدہ اور بدبودار ہوگئی تھیں  جس کی وجہ س انہیں  فریزر میں نہیں رکھا جا سکتا۔

جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ لاشیں اتنی بری حالت میں تھیں کہ انہیں تدریسی مقصد کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا لہٰذا سڑنے کا عمل مکمل ہونے کے بعد ان لاشوں سے ہڈیوں کو نکال کر تعلیمی مقاصد کیلیے استعمال کیا جاتا ہے ۔اس لیے ان لاشوں کی بے حرمتی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہڈیوں کی کی بازیافت کے بعد یہ لاشیں ہمیشہ صحیح طریقے سے دفن کی جاتی ہیں۔

متعلقہ تحاریر