بہاولپور کی خواتین کے ہاتھوں سے کڑھے ہوئے کپڑوں کی دھوم

آج پوری دنیا کے فیشن میں وقت کے ساتھ ساتھ نمایاں تبدیلی آ گئی ہے لیکن اس کے باوجود پنجاب کے ضلع بہاولپور کی خواتین کے ہاتھ سے کڑھے ہوئے کپڑوں کی دھوم دنیا بھر میں مچی ہوئی ہے۔ یہ کپڑے روایتی اور ثقافتی لحاظ سے بھی بہت مقبول خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

کڑھے ہوئے ملبوسات کی تاریخ

کپڑوں پہ کشیدہ کاری صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ پنجاب کی خواتین آج بھی ہاتھوں سے کی جانے والی کڑھائی کے ملبوسات زیب تن کرتی ہیں۔ خواتین کئی دہائیوں سے اسی لباس کو زیب تن کرنے اور بنانے کی روایت صدیوں سے قائم کیے ہوئے ہیں۔

ان ملبوسات میں تلہ، اون اور ریشم کے دھاگوں کی کڑھائی کی جاتی ہے۔ دوسری طرف ملبوسات کی تیاری میں موسم کے حساب سے کپڑوں کا انتخاب بھی کیاجاتا ہے جس میں لان، ریشم، سوتی ،شیفون اور جارجٹ کے کپڑوں پر کڑھائی کی جاتی ہے۔ پنجاب کے اس روایتی ملبوسات سے ثقافت کے رنگ نمایاں ہوتے ہیں۔

 کڑھائی کی اقسام

شفون، لان اور دیگر کپڑوں پر شیڈو شیشہ، پکا مکڑی، بے نظیر ٹانکہ، سندھی بوٹی، مکیش، کچابور، گوٹا کڑھائی سمیت دیگر روایتی کام کیا جاتا ہے۔

دکاندار چنگیز خان نے نیوز360 سے گفتگو میں بتایا کہ آس پاس کے گاؤں سے خواتین ان سے کپڑے لے جاتی ہیں اور موسم کے حساب سے مخصوص کپڑوں پر مختلف کڑھائی کا کام تیار کرتی ہیں۔ یہ روایتی ملبوسات نہ صرف پنجاب بلکہ دوسرے ممالک میں بھی کافی مقبول ہیں کیونکہ شادی بیاہ سمیت عام دنوں میں پہنے جاتے ہیں۔

کڑھائی کے ملبوسات کون بنایا ہے

بہاولپور کے قریب گاؤں میں خواتین آج بھی اس پیشے سے وابستہ ہیں اور ان کی مائیں یہ ثقافتی کام اپنی بچیوں کو سکھاتی ہیں۔ ماسی مریم خاتون نے نیوز 360 سے گفتگو میں بتایا کہ یہ روایتی اور ثقافتی کام صدیوں سے چلا آرہا ہے انہوں نے یہ کام اپنی والدہ سے سیکھا تھا۔

اب وہ مارکیٹ سے کپڑے لے جاتی ہیں اور ہاتھ سے کپڑوں پر کڑھائی کا کام کرتی ہے ان کے ساتھ آس پاس کی خواتین بھی کپڑوں پر کڑھائی کرکے پیسے کماتی ہیں۔ ماسی کریم خاتون نے بتایا کہ یہ کام ہی اُن کا واحد ذریعہ معاش ہے جس سے 15 ہزار تک آسانی سے کما لیتی ہیں۔

یہ بھی دیکھیے

افغانستان کے تاجر بے روزگاری کے خاتمے کے لیےکوشاں

شادی بیاہ پر کڑھائی والے کپڑوں کی مانگ

آج بھی لڑکیاں کشیدہ کاری یعنی کڑھائی سے تیار کردہ ملبوسات بڑی شوق سے پہنتی ہیں۔ خاص طور پر شادی بیاہ پر خواتین کی خواہش ہوتی ہے کہ اچھی کڑھائی والے کپڑے زیب تن کریں۔
پنجاب کی خواتین کڑھائی کے ملبوسات گھر پر ہی تیار کرکے خود بھی پہنتی ہیں۔ اور بازاروں میں تیار کرکے بیچتی ہے مگر ہاتھ کی کڑھائی ایک بہت وقت طلب کام ہوتا ہے جس کی تیاری میں تین سے چار روز اور زیادہ وقت بھی لگ جاتا ہے۔

ہاتھ کی کڑھائی والے ملبوسات کی ملک سے باہر دھوم

ہاتھ کی کڑھائی والے ملبوسات پوری دنیا میں فروخت کے لیے بھیجے جاتے ہیں جو کہ خاصے مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں کیونکہ ہاتھ سے کی گئی کڑھائی میں محنت زیادہ لگتی ہے اور اس کی تیاری میں کافی وقت درکار ہوتا ہے۔
اگر آپ میں کسی کو بھی ثقافتی کڑھائی والے کپڑے پہننے کا شوق ہے تو بہاولپور کے کسی بھی گاؤں کا رخ کریں۔ کپڑے آرڈر پہ تیار کروانے کے ساتھ ساتھ بہاولپور کے بازاروں سے مل سکتے ہیں۔

یہ کپڑے ہمسایہ ملک انڈیا، افغانستان اور ایران اور بنگلہ دیش سمیت اکثر خلیجی ممالک میں بھی بے حد مقبول ہیں کیونکہ خواتین بھی کشیدہ کاری سے سجے یہ کپڑے بڑے شوق سے پہنتی ہیں اور بہاولپور کی یہ خوبصورت ثقافت دنیا بھر میں اجاگر کرتی ہیں۔

متعلقہ تحاریر