مودی کو امریکا میں کڑے احتجاج کا سامنا؛ کانگریس ارکان نے باز پرس کا مطالبہ کردیا

بھارتی وزیراعظم کو امریکا میں شدید ترین احتجاج کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، مسلمان، سکھ  اور عیسائی کمیونیٹیز سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی مودی کے خلاف مظاہروں میں سرگرم ہیں جبکہ 70 سے زائد امریکی اراکین پارلیمنٹ نے جو بائیڈن سے مودی کی باز پرس کا مطالبہ  کیا ہے

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنے  دورہ امریکا  کے دوران سکھوں، عیسائیوں اور مسلمانوں سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں اور امریکی اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی امریکا آمد پر مسلسل احتجاج کا سلسلہ جاری ہے،اقوام متحدہ کے دفتر پہنچے پرانسانی حقوق کی تنظمیوں اور سکھ  کمیونیٹی نے ان کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ۔

یہ بھی پڑھیے

مودی سرکار کی بربریت؛ ڈاکٹر عمر خالد بغیر ٹرائل ایک ہزار دن سے تہاڑ جیل میں قید

اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے باہر بھارتی وزیراعظم کے خلاف سکھوں کی بڑی تعداد بھی جمع ہوئی اور نریندر مودی کے خلاف سخت نعرے بازی کی اور انہیں قصائی قرار دیا ۔

اراکین پارلیمنٹ،انسانی حقوق کی تنظمیوں  نے مودی سے قربت قائم کرنے پر صدر جو بائیڈن پر بھی تنقید کی ۔ مظاہرین نے کہا کہ بائیڈن نے مظالم پر آنکھیں بند کرلی ہیں۔

امریکی اراکین پارلیمنٹ نے  صدر بائیڈن  کی توجہ نریندر  مودی   حکومت کی جانب مبذول کروائی  اور کہا کہ انہوں نے بھارت میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا، انسانی حقوق کو پامال کیا۔

مسلمان ،عیسائی اور سکھ کمیونٹی  سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں  کے  سخت احتجاج کے باوجود صدر جو بائیڈن کی  امریکی انتظامیہ نے بھارتی وزیراعظم کا  ریڈ کارپٹ استقبال کیا ۔

امریکی کانگریس کی رکن راشدہ طلیب نے اپنی ایک ٹویٹ پوسٹ میں کہا کہ وہ کانگریس میں ہونے والے بھارتی وزیر اعظم  نریندر مودی کے خطاب کا بائیکاٹ کریں گی۔

انہوں نے لکھاکہ یہ  انتہائی شرمناک ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف وزری  کرنے والے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ملک کے داراحکومت  میں پلٹ فارم  دیا جا رہا ہے ۔

کانگریس ویمن نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، جمہوریت مخالف اقدامات، مذہبی اقلیتوں اور صحافیوں کو نشانہ بنانے کی ان کی طویل تاریخ ناقابل قبول ہے۔

ریپبلکن رکن کانگریس الہان عمر نے بھی نریندر مودی کے خطاب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ ٹوئٹر پیغام میں الہان عمر نے کہا کہ مودی کی تقریر میں شرکت نہیں کرونگی

انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے مذہبی اقلیتوں پر جبر کیا ہے، متشدد ہندو قوم پرست گروہوں کی حوصلہ افزائی کی ہےاور صحافیوں/انسانی حقوق کے حامیوں کو نشانہ بنایا ۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہےکہ مودی کا دورہ امریکا دونوں ممالک کے درمیان گہری شراک داری کا مظہر ہے، بھارت ایک اہم اسٹریٹیجک پارٹنر ہو گا۔

جان کربی نے بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور مودی حکومت کی جانب سے انتہائی دائیں بازو کی ہندو قوم پرستی (ہندوتوا) کو اپنانے کے بارے میں خاموشی اختیار کی ۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا کہ امریکہ میں مودی کے داخلے پر پابندی تھی،انہیں ویزا نہیں دیا جاتا تھا  مگر اب  نریندری مودی کے لیے سرخ قالینیں بچھائی جا رہی ہیں۔

احتجاج کے باجود امریکی کی دونوں سیاسی جماعتیں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن نے مشترکہ طور پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو گانگریس سے خطاب کی دعوت دی ہے ۔

یہ بھی پڑھیے

ٹوئٹر کے سابق سی ای او  جیک ڈورسی کے مودی پر سنگین الزامات

امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے 70 سے زائد ارکان نے جو بائیڈن کو ایک خط لکھا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مودی سے انسانی حقوق  سے متعلق باز پرس کی جائے ۔

امریکی اراکین کے مکتوب میں کہا گیاہے کہ عالمی میڈیا کی رپورٹس اور دیگر آزاد ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال بدترین نہج پر پہنچ گئی ہے ۔

متعلقہ تحاریر