بائیڈن کی ٹیم میں کشمیری خواتین کی شمولیت تبدیلی کی ضامن؟

کشمیری نژاد امریکی خواتین کی بائڈن انتظامیہ میں شمولیت انڈین حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔

امریکا کے سیاسی میدان میں تبدیلی کی ہوائیں چلنے لگی ہیں۔ پاکستانی نژاد امریکیوں کے بعد 2 کشمیری نژاد امریکی خواتین کو بھی نو منتخب صدر جو بائیڈن کی ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ یہ تقرریاں انڈین حکومت کو ٹف ٹائم تو دیں گی لیکن انڈیا اس سے کس قدر متاثر ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

امریکا کے نومنتخب صدر جوبائیڈن کی حلف برداری میں صرف ایک روز باقی رہ گیا ہے۔ اہم اراکین کے نام بھی سامنے آچکے ہیں۔ بائیڈن کی ٹیم میں ہر طبقے اور ہر قومیت کے لوگوں کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک طرف سیاہ فام خاتون کمالا ہیرس کو امریکا کی پہلی نائب صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا وہیں 2 کشمیری نژاد خواتین (سمیرا فضلی اور عائشہ شاہ) بھی بائیڈن کی امریکی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں گی۔

ہارورڈ گریجویٹ کشمیری نژاد امریکی خاتون سمیرا فضلی کو نیشنل اکنامک کونسل (این ای سی) کا ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر کیا گیا ہے۔ سمیرا فیڈرل ریزور بینک اٹلانٹا میں کمیونٹی اورمعاشی ترقی کی ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔ صدر اوباما کے دور میں وہ وائٹ ہاؤس کی قومی معاشی کونسل میں سینئر پالیسی مشیر کے عہدے پربراجمان تھیں۔ سمیرا فضلی جارجیا میں اپنے شوہراور3 بچوں کے ہمراہ قیام پذیر ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کمالا ہیرس کی انسٹاگرام پر آپ بیتی کی پہلی قسط

کمالہ ہیرس
NDTV

مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی عائشہ شاہ کو وائٹ ہاؤس ڈیجیٹل اسٹریٹجی ٹیم کی پارٹنرشپ منیجر کی حیثیت سے جو بائیڈن کی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ عائشہ  نے شمالی کیرولینا کے ڈیوڈسن کالج سے گریجویشن کیا اوراسٹراٹیجک کمیونیکیشن اسپیشلسٹ کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔

جوبائیڈن کی ٹیم میں 2 کشمیری نژاد خواتین کی شمولیت نے انڈیا کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ مقبوضہ وادی سے تعلق رکھنے والی یہ خواتین کشمیریوں کی آواز وائٹ ہاؤس تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کریں گی ۔ جس سے نہ صرف کشمریوں کا موقف واضح طور پر دنیا کے سامنے آئے گا بلکہ انڈیا کے مقبوضہ کشمیر پرغیر قانونی تسلط کی حقیقت بھی عیاں ہونے میں مدد ملے گی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکا کی نو منتخب نائب صدر کمالا ہیرس بھی کشمیریوں کی حمایتی ہیں۔ متعدد بیانات میں کشمیر سے یکجہتی کا اظہار بھی کرتی رہی ہیں۔ امریکی ایوان میں آنے والی یہ تبدیلی انڈیا کی مودی حکومت پر دباؤ کو بڑھا سکتی ہے۔

متعلقہ تحاریر