جارج فلائیڈ کے قتل میں پولیس افسر ڈیرک شاوین مجرم قرار
گذشتہ برس ایک امریکی پولیس افسر ڈیرک شاوین نے جارج فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھا تھا اور سانس بند ہونے کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی تھی۔
امریکی عدالت نے سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کے قتل کے کیس میں مینی سوٹا پولیس کے سابق افسر ڈیرک شاوین کو مجرم قرار دے دیا ہے۔ فیصلے کے بعد ڈیرک شاوین کو عدالت سے ہی گرفتار کرلیا گیا ہے۔
مئی 2020 میں پولیس افسر ڈیرک شاوین کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں انہوں نے ایک سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھا ہوا تھا۔ سانس رکنے کی وجہ سے جارج فلائیڈ کی موت واقع ہوگئی تھی۔
جارج فلائیڈ کی یہ ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد امریکا بھر میں نسل پرستی کے خلاف کئی روز تک مظاہرے کیے گئے تھے۔
سیاہ فام جارج فلائیڈ قتل کیس کا فیصلہ ٹوئٹر پرٹرینڈ بن گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
بنارس میں کنبھ کا میلہ لاشوں کے ڈھیر لگا گیا
بعد ازاں پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ پولیس افسر ڈیرک شاوین نے جارج فلائیڈ کی گردن پر 8 منٹ اور 46 سیکنڈز تک گھٹنا ٹیکے رکھا تھا۔ جس کے 3 منٹ بعد ہی جارج فلائیڈ کی موت واقع ہوگئی تھی۔
مینی سوٹا پولیس نے عدالتی فیصلے کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شیئر کیا ہے۔
Statement From Chief Arradondo (April 20, 2021) pic.twitter.com/GO6PLEYfmv
— Minneapolis Police (@MinneapolisPD) April 21, 2021
عدالتی فیصلے کے چیدہ چیدہ نتائج
مینی سوٹا پولیس کے سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو جارج فلائیڈ کی موت کے عدالتی فیصلے کی روشنی میں 3 طرح کی سزا کا سامنا ہوسکتا ہے۔
- دوسری ڈگری کے قتل کے جرم میں 40 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
- تیسری ڈگری کے قتل کے جرم میں 25 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
- قتل عام کے جرم میں 10 قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے عدالتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’جارج فلائیڈ کی موت دن کی روشنی میں قتل ہے۔ منظم نسل پرستی پوری قوم کی روح پر ایک دھبہ ہے۔‘
امریکا کی نائب صدر کمالا ہیرس نے کہا ہے کہ ’آج ہم نے سکھ کا سانس لیا ہے لیکن پھر بھی اس سے تکلیف دور نہیں ہوسکتی۔ ہمیں ابھی بھی نظام میں اصلاح کرنا ہوگی۔‘
عدالتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے جارج فلائیڈ کے بھائی فلونائز فلائیڈ نے کہا ہے کہ ’آج خوشی منانے کا دن ہے۔‘
فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے امریکا کے ایک سماجی رہنما ریو جیس نے کہا ہے کہ ’عدالتی فیصلہ بہت نمایاں ہے لیکن پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔‘
فیصلہ آنے کے بعد عدالت کے باہر موجود لوگوں کی بڑی تعداد نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے نعرے لگائے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ معاشرے جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے وہاں جارج فلائیڈ جیسے فیصلے آتے ہیں، لیکن جہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہاں پر ساہیوال اور لاہور کے ماڈل ٹاؤن سانحے جیسے فیصلے آتے ہیں۔
اکتوبر 2019 میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ساہیوال میں قتل کیس کا فیصلہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سنایا تھا۔ عدالت نے تمام ملزمان صفدر حسین، احسن خان، رمضان، سیف اللہ، حسنین اور ناصر نواز کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا تھا۔
عدالت نے مقدمے میں مقتول ذیشان کے بھائی اور خلیل کے بچوں سمیت 49 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے تاہم تمام گواہان نے عدالت کے روبرو ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کردیا تھا۔
دوسری جانب پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی آخری سماعت سپریم کورٹ میں گذشتہ سال فروری میں ہوئی تھی۔
سپریم کورٹ نے لاہور میں ماڈل ٹاؤن واقعے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کردیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے صوبائی حکومت کی طرف سے بنائی گئی دوسری مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو کام کرنے کی اجازت دے دی تھی۔