مس یونیورس کے مقابلے میں ماڈلز تشدد کے خلاف سراپا احتجاج
یکم فروری کو فوجی بغاوت کے بعد سے میانمار کے شہریوں اور فوج کے درمیان تصادم شروع ہوا تھا جس میں اب تک کم از کم 700 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
میانمار (برما) میں جاری فوجی بغاوت اور ایشیاء میں تشدد کے خلاف ماڈلز نے مس یونیورس کے مقابلے میں آواز بلند کی ہے اور احتجاج کیا ہے۔
مس میانمار تھوزار لوین اس وقت مداحوں کی توجہ کا مرکز بنیں جب انہوں نے ماڈلنگ کے دوران ایک پلے کارڈ ہاتھ میں اٹھایا۔ پلے کارڈ پر ʼمیانمار کے لیے دعا کریں‘ درج تھا۔
Powerful costume from Myanmar!
Don’t forget to vote for your favorite costume at https://t.co/isjijntrRM. Voting closes at 11:59 pm on 5/15. pic.twitter.com/EWCq2fM9CD
— Miss Universe (@MissUniverse) May 14, 2021
یہ بھی پڑھیے
اسرائیل کے فلسطین پر حملوں کے خلاف مشہور شخصیات ہم آواز
مس میانمار تھوزار لوین نے اپنی ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ ʼفوجی ہمارے شہریوں کو ہر روز گولیاں مار رہے ہیں۔ میں سب سے درخواست کرتی ہوں کہ میانمار میں ہونے والی فوجی بغاوت کے خلاف آواز بلند کریں۔‘
رواں برس یکم فروری کو فوجی بغاوت کے بعد سے میانمار کے شہریوں اور فوج کے درمیان تصادم شروع ہوا تھا جس میں اب تک کم از کم 700 افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور 5 ہزار کے قریب افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
مس سنگاپور برینڈیٹ بیلے اونگ نے بھی مس یونیورس کے مقابلے میں اپنے لباس کا استعمال سیاسی پیغام کے طور پر کیا۔ برینڈیٹ بیلے اونگ کے لباس پر ʼایشیاء والوں سے نفرت بند کریں‘ لکھا ہوا ہے۔
View this post on Instagram
مس سنگاپور برینڈیٹ بیلے اونگ نے اس حوالے سے اپنے انسٹاگرام پر لکھا ہے کہ ʼاگر میں تشدد کے خلاف پیغام دینے کے لیے مس یونیورس کے پلیٹ فارم کا استعمال نہیں کرتی تو اس پلیٹ فارم کا کیا فائدہ کیا۔‘
View this post on Instagram
مس میانمار اور مس سنگاپور سمیت دیگر ماڈلز نے بھی مس یونیورس کے مقابلے میں تشدد کے خلاف آواز بلند کی ہے۔