افغانستان میں تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرانے جارہی ہے؟

بی بی سی کی نامہ نگار کے مطابق سوویت افواج کے انخلاء کے وقت بھی افغانستان کے حالات کشیدہ تھے۔  

نیٹو افواج نے تقریباً 2 دہائیوں کے بعد افغانستان کے بگرام ایئر بیس کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی نامہ نگار لائس ڈوسے نے کہا کہ 1989 میں جب سوویت افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوا تھا تو حالات بہت کشیدہ تھے آج جب نیٹو افواج روانہ ہورہی ہیں تو تاریخ اپنے آپ کو دہراسکتی ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بی بی سی کی نامہ نگار لائس ڈوسے نے اگلے وقتوں میں کابل کی صورتحال سے متعلق پیغام شیئر کیا۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صدر اشرف غنی کے اقتدار میں رہنے اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے مستقبل کے حوالے سے چند اہم سوالات بھی تحریر کیے۔

لائس ڈوسے نے اپنی ٹوئٹ میں نیٹو افواج کے انخلا کے بعد کی صورتحال کو 1989 میں سوویت افواج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ لائس ڈوسے برطانوی نشریاتی ادارے کی بین الاقوامی چیف رپورٹر ہیں۔ وہ تقریباً 30 سال سے بی بی سی سے منسلک ہیں۔ لائس ڈوسے 1999 سے کابل، اسلام آباد، تہران اور یروشلم سمیت مختلف ممالک میں رپورٹنگ کے فرائض انجام دے چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

امریکی صدر نے افغان حکام کو ہری جھنڈی دکھا دی

افغانستان میں عدم استحکام کا سلسلہ 1973 میں شروع ہوا جب افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے بھائی نے سازش کے تحت حکومت کا تختہ الٹ دیا اور سوویت فوجوں نے اپریل 1973 میں افغانستان پر قبضہ کرتے ہوئے صدر داؤد اور ان کے خاندان کو گولی مار دی تھی۔ نور محمد تراکئی نے ملک میں پہلی کمیونسٹ حکومت کی بنیاد ڈالی تاہم 1979 میں انہیں خفیہ طور پر قتل کردیا گیا۔

مجاہدین نے 1992 میں کابل پر قبضہ کرلیا اور نجیب اللہ کی حکومت کا خاتمہ کردیا اور کچھ عرصے کے لیے پروفیسر برہان الدین ربانی کو اسلامی جمہوریہ افغانستان کو صدر بنا دیا گیا۔

1996 میں امریکا نے طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسامہ اس وقت طالبان کے’مہمان‘ کے طور پر افغانستان میں موجود تھے۔ 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد امریکا کی جانب سے اسامہ بن لادن کو اس کارروائی کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور اسے جواز بناتے ہوئے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر فضائی حملے شروع کردیئے۔

نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے وعدے کے مطابق افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا پر عملدرآمد شروع کردیا ہے۔ حال ہی میں امریکا میں افغان صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کرتے ہوئے صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ افغانیوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔

امریکی فوج کی واپسی کے آغاز کے ساتھ ہی ایک مرتبہ پھر افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوگیا ہے۔ طالبان نے متعدد اضلاع پر قبضے کا اعلان کردیا ہے جبکہ ملک کے مختلف حصوں سے ہجرت کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔

متعلقہ تحاریر