سی پیک اتھارٹی کے ترمیمی بل کے خدو خال

حکام کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترمیمی بل کے تحت چیئرمین سی پیک اتھارٹی متعلقہ ڈویژن کے ذریعے وزیر اعظم کو رپورٹ کریں گے۔ اتھارٹی کو نیک نیتی سے کیے گئے کاموں پر قانونی چارہ جوئی سے بھی استثنیٰ حاصل ہوگا۔

پاکستان میں سب سے اہم اتھارٹی کو قانونی تحفظ ملنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقیات نے "پاک چین اقتصادی راہداری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2020” منظور کرلیا ہے۔ 6 ارکان نے بل کے حق اور 5 نے مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔

جنید اکبر کی زیرصدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقیات کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔ جس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر بھی شریک ہوئے۔ اجلاس میں  کمیٹی نے استفسار کیا کہ چیئرمین سی پی ای سی کو تنخواہ کا کونساپیکج دیا جارہا ہے؟

وزارت منصوبہ بندی کے حُکام نے بتایا چیئرمین سی پیک کو تنخواہ نہیں دی جا رہی کیونکہ سی پیک آرڈیننس کی میعاد ختم ہونے کے بعد چیئرمین نے کسی بھی ایم او یو پر دستخط نہیں کئے ہیں۔

جس کے بعد کمیٹی نےتفصیلی بحث کے بعد کثرت رائے سے پاک چین اقتصادی راہداری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2020 کی منظوری دے دی۔

شِنہوا

گزشتہ اجلاس میں متعلقہ حکام نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ 31 مئی 2020 کو سی پیک آرڈیننس ختم ہوگیا تھا۔ اب یہ بل منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔

اجلاس میں شریک 7 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ  5 اپوزیشن ارکان نے بل کی مخالفت کی تھی۔ چیئرمین کمیٹی نے اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترمیمی بل کے تحت چیئرمین سی پیک اتھارٹی متعلقہ ڈویژن کے ذریعے وزیر اعظم کو رپورٹ کریں گے۔ اتھارٹی کو نیک نیتی سے کیے گئے کاموں پر قانونی چارہ جوئی سے بھی استثنیٰ حاصل ہوگا۔

سی پیک اتھارٹی کب قائم ہوئی

چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت ترقیاتی سرگرمیوں کا دائرہ کار بڑھانے اور زیادہ موثر بنانے کے سی پیک اتھارٹی کا قیام صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ عمل میں لایا گیا تھا۔  قانون سازی کی بجائے آرڈیننس کے ذریعے سی پیک اتھارٹی کے قیام پر اپوزیشن احتجاج کر چکی ہے۔

حکومت کا موقف ہے کہ آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت صدر مملکت دو صورتوں میں آڈیننس کی منظوری دے سکتے ہیں۔ ایک تو جب کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس نہ چل رہا ہو۔ دوسرا جب صورت حال قانونی بل کے فوری نفاذ کی متقاضی ہو۔

آئین کے تحت صدارتی آرڈیننس کی عمر 120 روز ہوتی ہے۔ اس طرح سی پیک اتھارٹی آرڈیننس 2019 کی معیاد فروری 2020 میں ختم ہونا تھی جبکہ  دوبارہ 120 روز  کے لیے  آرڈیننس کی منظوری قومی اسمبلی ہی دے سکتی ہے۔

شِنہوا

دوسری مدت کی تکمیل پر صدارتی آرڈیننس خود بخود معطل ہوجاتا ہے۔ قومی اسمبلی سے دوبارہ منظوری پانے والے سی پیک اتھارٹی آرڈیننس 2019 کی مدت 29 مئی کو ختم ہوگئی ہے۔

 سی پیک اتھارٹی کا ڈھانچہ

صدر مملکت نے 8 اکتوبر 2019 کو جاری کردہ آرڈیننس کے ذریعے 10 رکنی سی پیک اتھارٹی قائم کی تھی۔ لیفٹننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے بطور پہلےچیئرمین سی پیک اتھارٹی  26 نومبر 2019 کو ذمہ داریاں سنبھالیں۔

 اتھارٹی میں ایک چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او)، دو ایگزیکٹیو ڈائریکٹرز (آپریشنز اور ریسرچ) اور 6 اراکین بھی متعین ہیں۔ سی پیک اتھارٹی، منصوبہ بندی، ترقی اور اصلاحات ڈویژن کے ماتحت فرائض سر انجام دیتی ہے۔

پاکستان اور چین کے درمیان تقریباً 62 ارب ڈالرز کے ان منصوبوں کو سی پیک کا نام دیا گیا ہے جن کا آغاز سنہ 2013 میں ہوا تھا۔ سی پیک کے تحت چین پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کررہا ہے جن میں راہداری اور توانائی کے شعبے شامل ہیں۔

پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے قیام سے متعلق قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے بل میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی کے ملازمین سول ملازمین تصور نہیں ہوں گے۔ اتھارٹی کے چیئرپرسن اور اراکین کے خلاف قانونی کارروائی بھی نہیں کی جاسکے گی۔ بل میں کہا گیا کہ اتھارٹی چیئرپرسن، ایگزیکٹو ڈائریکٹر آپریشنز یا ایگزیکٹو ڈائریکٹر ریسرچ اور 6 اراکین پر مشتمل ہو گی اور اتھارٹی کا سربراہ چیئرپرسن ہوگا۔

شِنہوا

اتھارٹی کے چیئرپرسن، اراکین اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا تقرر وزیراعظم کی جانب سے کیا جائے گا اور شرائط و ضوابط کا تعین بھی وزیراعظم ہی کریں گے۔

اراکین کے انتخاب کے حوالے سے واضح کیا گیا کہ مفاد کا ٹکراؤ رکھنے والا کوئی بھی شخص چیئرپرسن، ایگزیکٹو ڈائریکٹر یا رکن نہیں بن سکے  گا۔ بل کے مطابق سی پیک اتھارٹی کے چیئرپرسن اور ارکان کا تقرر 4 سال کے لیے ہو گا اور ارکان کی 4 سال کے لیے دوبارہ بھی تقرری کی جا سکتی ہے۔

اتھارٹی کی ذمہ داریوں میں سی پیک منصوبوں میں آسانی پیدا کرنا، رابطہ کاری، فیصلوں کے نفاذ، منصوبوں کی نگرانی اور ان کی جانچ کرناشامل ہوگا۔

بل کے مطابق سی پیک اتھارٹی کے چیئرپرسن سی پیک سے متعلق کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں تشکیل دے سکیں گے اور اتھارٹی کا اجلاس طلب کیا جاسکے گا۔ اتھارٹی کا ہر مالی سال میں سہہ ماہی بنیادوں پر اجلاس ہوگا اور کورم کے لیے تعداد کل اراکین کی دو تہائی ہوگی۔

شِنہوا

بل میں کہا گیا کہ سی پیک کاروباری کونسل بھی قائم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ سی پیک فنڈ وزارت خزانہ کی منظوری سے تشکیل دیا جائے گا اور حسابات کی جانچ پڑتال آڈیٹر جنرل کرے گا۔

سیاسی مخالفت

پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی کا سینٹ میں کہنا تھا کہ حکومت چیئرمین سی پیک اتھارٹی اور ممبران کو استثنیٰ دینے جارہی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہدرای (سی پیک) آرڈیننس جون میں متروک ہوچکا ہے اور بغیر کسی قانون کے اتھارٹی کام کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک اتھارٹی کے اپنے فنڈز اور بینک اکاؤنٹ ہیں اور وہ حیرت زدہ ہیں کہ ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر ادائیگیاں کیسے ہو رہی ہیں۔

جبکہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ”لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم باجوہ کی اتھارٹی کی مدت ختم ہو گئی ہے لیکن وہ آج بھی میرے لیے بہت کار آمد ثابت ہو رہے ہیں۔ میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں جس طرح وہ آج بھی ہماری مدد کررہے ہیں۔‘‘

حکومت بل پاس کرواسکے گی؟

قائمہ کمیٹی کی منظوری کے بعد سی پیک اتھارٹی ترمیمی بل منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔ جس کے بعد صدر مملکت کے دستخط سے اتھارٹی کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقیات کے اجلاس میں اپوزیشن نے بل کی مخالفت کی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی اپوزیشن بل کی مخالفت کرے گی۔

قومی اسمبلی میں 342 ارکان کے ایوان میں آئینی ترامیم کے لئے دو تہائی اکثریت یعنی 228 ارکان کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ دونوں ایوانوں میں مجموعی طور پر اپوزیشن کے پاس حکومتی بینچز سے 9 ووٹ زیادہ موجود ہیں۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی ارکان کی مجموعی تعداد 217 ہے۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن ارکان کی مجموعی تعداد 226 ہے۔

شِنہوا

قومی اسمبلی میں اکثریت ہونے کے سبب حکومت گزشتہ دو پارلیمانی برسوں کے دوران  بآسانی بل منظور کرواتی رہی ہے۔ لیکن سینیٹ میں اسے مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ سینٹ میں شکست ہونے پر قانون منظور کرانے کے لیے پہلے بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس بلائے گئے اور جو بل منظور کرانے چاہے حکومت نے منظور کرا لیے۔

رواں برس ماہ ستمبر  میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کو حکومت کے مقابلے میں 9 ووٹوں کی اکثریت کے باوجود شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

جب اپوزیشن ارکان کی مشترکہ اجلاس میں مجموعی تعداد 226 تھی جن میں سے اپوزیشن کے 190 ارکان نے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی اور 36 غیر حاضر رہے۔ یوں اپوزیشن کی عددی اکثریت اقلیت میں بدل گئی اور اور حکومت نے مطلوبہ بل منظور کرالئے۔

اب بھی لگتا ہے سی پیک اتھارٹی بل کی منظوری کے لیے حکومت یا تو اپوزیشن کو راضی کر لے گی اور یا پھر پہلے کی طرح مشترکہ اجلاس بلانے کی حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔

متعلقہ تحاریر