خیبر پختون خوا میں روایتی طریقوں سے گڑ بنانے کا طریقہ آج بھی رائج

ماہرین صحت کے مُطابق گُڑ ایک ایسی سوغات ہے جو ناصرف سستی اور ذائقہ دار ہے بلکہ طبّی فوائد سے بھی مالا مال ہے۔

پاکستان میں گنے (کماد) کی فصل بڑے پیمانے پر کاشت کی جاتی ہے۔ گنے کے رس سے روایتی طریقوں سے گڑ بنانے کا عمل آج  بھی خیبر پختون خوا (کے پی کے) کے کئی اضلاع میں زندہ ہے.

سردیاں شروع ہوتے ہی گنے کی فیصل تیار ہو جاتی ہے جس کے فوری بعد زمیندار حضرات گڑ گانیاں فعال کرنا شروع کر دیتے ہیں.

اصلی گڑ کی تیاری بہت سے دلچسپ مراحل سے گزر کر تیار ہوتا ہے ، یہ مراحل کافی مشکل ہوتے ہیں۔ سب سے گنے کو بیلنوں سے گزار کر اس کا رس تیار کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پشاور تا طورخم تباہ حال سفاری ریلوے ٹریک حکومتی توجہ کا منتظر

کے پی میں زعفران کی کاشت کا کامیاب تجربہ

بلنوں سے باہر نکلتے ہی رس کنکریٹ کی نالیوں اور پائپوں سے ہوتے ہوئے فلٹرز سے گزرتا ہے۔ فلٹر ہونے کے بعد رس گرم کڑائیوں میں چلا جاتا ہے جہاں آگ کی تپش سے رس کو گاڑا کیا جاتا ہے۔

کڑاہی میں ٹھنڈا ہونے کے بعد تالی میں رکھ کے ہاتھوں کی مدد سے گڑ کے دانے بنائے جاتے ہیں. ابلتی ہوئی پت (گنے کے رس) سے مَیل اتارنے اور صفائی کے لیے گاؤ زبان، سکھلائی اور کچھ دیگر غیر مضر اجزا ڈالے جاتے ہیں جن کا اثر ایک گھنٹے تک 100 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زائد درجہ حرارت پر ابلنے سے بالکل ختم ہو جاتا ہے اور آخر میں خالص گنے کا گاڑھا شیرہ ہی بچتا ہے، جس سے گُڑ یا شکر بنا لی جاتی ہے۔ گُڑ نقصان دہ تب ہوتا ہے جب لکڑی کی ٹرے میں ڈالنے کے بعد شیرے میں کوئی کیمیکل جیسے چینی، کھاد اور رنگ بدلنے والے نقصان دہ فوڈ کلرز وغیرہ ڈالے جائیں.

کاٹ (کیمیکل) شامل کیے بغیر گنے کی رس سے تیار کردہ گُڑ چائے کے لیے بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ یہ تیار شدہ گڑ خیر پختوں خوا کے مختلف علاقوں سے پورے پاکستان اور افغانستان کو سپلائی کیا جاتا ہے۔

ماہرین صحت کے مُطابق گُڑ ایک ایسی سوغات ہے جو ناصرف سستی اور ذائقہ دار ہے بلکہ طبّی فوائد سے بھی مالا مال ہے۔ خالص گنے کے رس سے تیار کیا جانے والا گُڑ ، چینی کا متبادل بھی کہا جاتا ہے۔ گُڑ میں کیروٹین، نکوٹین، تیزاب، وٹامن اے، وٹامن بی ون، وٹامن بی ٹو، وٹامن سی کے ساتھ ساتھ آئرن اور فاسفورس وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے‘۔ گڑ کی استعمال سے شوگر جیسے موذی بیماری سے بھی بچا جا سکتا ہے.

متعلقہ تحاریر