صحافی مدثر نارو کی بازیابی کے لیے حکومتی کارکردگی صفر ہے، عدالت
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے بڑے آدمی کا بیٹا غائب ہوجائے تو حکومت حرکت میں آجاتی ہے غریب خاندان کمیشن کے چکر لگاتا رہتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافی و ولاگر مدثر نارو کی بازیابی کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے میں ریاست کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا۔ متاثرین در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافی و ولاگر مدثر نارو کی بازیابی کیس کی سماعت چیف جسٹس نے کی ۔ وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اور سیکرٹری داخلہ ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے جنہیں عدالت نے ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
رانا شمیم کے فرزند شراب نوشی کے شوقین نکلے
توہین عدالت کیس، ن لیگ نے رانا محمد شمیم کو تنہا چھوڑ دیا
سماعت کے موقع پرچیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس معاملے میں ریاست کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا۔ متاثرین در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، جس پر وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا تھاکہ ہر پاکستانی کے حقوق برابر ہیں، گزشتہ دو حکومتوں کے ادوار میں اغوا ، جبری گمشدگیوں کے لئے کچھ نہیں ہوا۔ جس پر عدالت نے کہا کہ گزشتہ دو ادوار میں نہیں بلکہ غیر جمہوری حکومتوں نے نظام تباہ کیا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر سائل کو مطمئن کرے۔ اس معاملے میں کیوں ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے، اس معاملے میں کسی کو تو ذمہ داری لینا چاہئے، یہ کابینہ کے سمریوں کی بات نہیں ہے۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا تھاکہ اغوا شدہ افراد کو بازیاب کرنا پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں شامل ہے۔ بلوچستان سے کچھ اغوا شدہ کے لواحقین آئے تھے ان کی ملاقات وزیر اعظم سے کرائی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر ایک بڑے آدمی کا بیٹا غائب ہوتا تو ریاست کا ردعمل کچھ اور ہوتا ، اگر کوئی عام شہری لاپتہ ہو جائے تو کوئی پوچھتا نہیں ہے یہ انتہائی سنگین جرم ہے، یہ تو کوئی طریقہ نہیں کہ متاثرہ خاندان کمیشن کے پاس مارا مارا پھرتا رہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ماہرہ ساجد کیس میں اس عدالت نے متاثرین کو معاوضہ دینے کا حکم دیا، مگر وفاقی حکومت نے اس عدالت کے فیصلے کو چیلنج کردیا۔ وفاقی حکومت نے اس عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کی بجائے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ اغوا شدہ شخص کے لواحقین کو آئندہ وفاقی کابینہ میں پیش کیا جائے۔ متاثرین کے لواحقین کو یقین ہونا چاہیے کہ وہ اس ملک کے باعث شہری ہیں۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کرنا چاہئے، عدالت جو حکم دے گی اسے من وعن تسلیم کریں گے۔
عدالت نے کہا کہ جس خاندان کا پیارا جبری طور پر غائب ہوجائے تو اس کی تکلیف وہی خاندان جانتا ہے۔ جبری گمشدگیوں کو خاتمہ ہماری زمہ داری ہے۔
مقدمے کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ انہیں اس مقدمہ میں کچھ زیادہ وقت دیا جائے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک شخص تین برس سے غائب ہے آپ کو مذید وقت چاہئے۔ بعدازاں عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کر دی۔