کراچی میں ایک قبر میں کئی کئی میتوں کی تدفین

اس وقت شہر کراچی میں 184قبرستان ہیں جو کے ایم سی کے زیرِ انتظام ہیں

پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا ساتواں بڑا شہر ملکی ترقی کا ضامن ، 60 فیصد ریونیو دینے والا اور تقریبا پونے تین کرورڑ نفوس پر مشتمل شہر کراچی اپنی تمام تر خوبیوں اور رعنائیوں کے باوجود نہ صرف مسائل کا شکار ہے بلکہ اس کی مشکلات میں ہر نئے روز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ وجوہات تو کئی ہیں لیکن اصل وجہ اس کی بے سروسامانی ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ اس شہر کے ساتھ جس  طرح کا رویہ اختیار کیا گیا ہے وہ قابل افسوس کے ساتھ ساتھ قومی جرائم کی فہرست میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، مخدوش انفرا اسٹریکچر، بے ہنگم ٹریفک ، غیر قانونی تعمیرات اور سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ مردم شماری میں ایک کروڑ سے زائد شہریوں کو ظاہر ہی نہیں کرنا ایک سنگین مجرمانہ غفلت ہے اس شہر کی آبادی  ڈھائی کروڑ سے زائد ہے جبکہ حکومتی  سطح پر شہر کی آبادی کو ڈیڑھ کروڑ بتایا گیا ہے اس طرح سے بقیہ ایک کروڑ آبادی کے لئے  جو وسائل درکار ہیں ان کی فراہمی کون کرے گا ؟۔

یہ بھی پڑھیے

محمد شاہ قبرستان میں سیوریج کا پانی داخل

جدید قبروں کے ڈیزائن سوشل میڈیا پر وائرل

غربت، مہنگائی اور بے روزگاری سے بری طرح متاثر شہری جہاں اپنے روزگار کیلئے پریشان ہیں وہیں کراچی والوں کیلئے موت بھی ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے سفید پوش افراد کے گھر میں اگر موت ہوجائے تو مرنے والے کی جدائی کا دکھ تو ایک جانب اس کی تجہیز و تکفین لواحقین کی کمر توڑ دیتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق کثیر آبادی والے شہر میں یومیہ 100 سے زائد بچے پیدا ہوتے ہیں جبکہ یومیہ 10 سے 15 اموات ہوتی ہیں جن کی تدفین کیلئے شہر میں 184 قبرستان ہیں۔ شہر میں گذشتہ 30 سالوں میں سرکاری سطح پر ایک بھی نیا قبرستان نہیں بنایا گیا، آخری مرتبہ 1989 میں کراچی کے علاقے مواچھ گوٹھ میں قبرستان کے لیے میں 20 ایکڑ زمین الاٹ کی گئی تھی۔ یہاں تک کہ کراچی کے ضلع جنوب میں آج تک ایک بھی قبرستان نہیں بنایا گیا۔

اس وقت شہر کراچی میں 203 قبرستان ہیں جو کے ایم سی کے زیرِ انتظام ہیں۔ ان میں سے 184 مسلمانوں کے، 12 مسیحیوں کے، پانچ ہندوؤں، جبکہ ایک پارسی اور ایک یہودیوں کا قبرستان ہے۔

شہرکی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے تاہم شہر کے قبرستانوں میں تدفین کی گنجائش ختم ہوچکی ہے اور اب شہر قائد کے مکینوں کو اپنے پیاروں کی تدفین کیلئے یا تو ہزاروں روپے گورکنوں کو دینا ہوتے ہیں یا پھر اپنے علاقوں سے دور دراز قبرستانوں میں تدفین کرنا پڑتی ہے۔ ہندوستان پر حکومت کرنے والے مغلیہ سلطنت کے آخری فرمانرواں بہادر شاہ ظفر کا لکھا ہوا یہ شعر آج کے کراچی کے رہائیشوں کی صورتحال پر صادق آتا ہے

’کتنا  ہے بد نصیب  ظفر دفن  کے لیے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں‘

کراچی کے جن بڑے قبرستانوں کو تدفین کیلئے بند کیا جاچکا ہے ان میں  شاہ فیصل کالونی میں واقع عظیم پورہ قبرستان اور کالونی گیٹ قبرستان شامل ہے ، اسی طرح کورنگی نمبر 6 میں مولا بخش قبرستان ، ماڈل کالونی قبرستان ، نارتھ ناظم آباد میں پاپوش نگر قبرستان ، سخی حسن قبرستان ، گلبرگ کا یاسین آباد قبرستان ، گلشن اقبال کا عیسا نگری قبرستان ، لیاقت آباد کا خاموش کالونی قبرستان ، گلشن اقبال کا قبرستان بھی تدفین کیلئے بند کردیا گیا ہے، مجموعی طور پر کراچی کے 18 قبرستانوں کو تدفین کیلئے بند کردیا گیا ہے۔ ان قبرستان نوں میں لاکھوں شاہ سوار اور کج کلاہ افراد ابدی نیند سو رہے ہیں ، جن کی قبروں سے حسرت ٹپک رہی ہے اور اس بات کا اعلان کر رہی ہیں کہ "ہر جان دار شے کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے”۔ بعض قبروں پر لگے کتبے انتہائی دل خراش ہیں کہ جن سے عبرت  لینا چاہئے، تاہم ان حسرتوں یاس کی تصاویر بنے بے بس مدفون افراد پر کاروبار کرنے والا مافیا اس حقیقت سے صرف نظر کیئے ہوئے ہے کہ انھیں بھی مرنا ہے اور اس تنگ و تاریک گڑھے میں ہی جانا ہے۔ قبرستانوں میں تدفین پر پابندی کے موجود مافیا مرنے والوں کے اہلخانہ سے بھاری رقوم کے عوض ان ممنوعہ قبرستانوں میں مسلسل قبریں کھود رہا ہے ۔

کراچی میں ایک قبر کے سرکاری نرخ  نو ہزار اور کچھ روپے ہیں لیکن قبرستان مافیا متوفی کے اہلخانہ سے تدفین کیلئے تیس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک رقم بٹورتے ہیں ، کہا جاتا ہے کہ  قبرستان میں جگہ ہی نہیں ہے تاہم اگر کچھ پیسے کی بات کی جائے تو پھر وہ کوئی راہ نکال لیتے ہیں ، مافیا کے کارندے متوفی کے اہلخانہ کو راستہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر کوئی پوچھے تو کہہ دینا کے ہمارے رشتے دار کی قبر تھی جس میں تدفین کرائی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ایک ڈسکاؤنٹ آفرز دی جاتی ہیں کہ  کسی بھی  قبر کے سائڈ میں تھوڑی جگہ نکال کر کم پیسوں میں تدفین کی جا سکتی ہے۔

اس طرح یہ مافیا کسی بھی قبر کو  نئی قبر میں تبدیل کردیتا ہے اور جب اس کے لواحقین اپنے پیارے کی قبر پر آتے ہیں تو ان کو وہاں ایک نئے نام کی تختی والی قبر ملتی ہے  اور جب گورکن سے سوال پوچھا جائے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم۔

متعلقہ تحاریر