شرح سود میں اضافے پر صنعتی اور تاجر برادری چراغ پا

ایف پی سی سی آئی کا کہنا ہے شرح سود میں اضافے سے بینکوں کو سالانہ 1100 ارب روپے ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے کہنا ہے کہ شرح سود میں اضافہ 13.5 فیصد تک پہنچ گیا ہے جو بلاجواز ہے۔  شرح سود میں بے پناہ اضافے سے صنعتوں کی گروتھ رک جائےگی اور ایکسپورٹ آرڈر بھی وقت پر تیار نہیں ہوں گے۔

وزیر خزانہ شوکت ترین کو لکھے گئے خط میں ایف پی سی سی آئی نے کہا ہے کہ شرح سود میں اضافے نے معیشت کو پٹڑی اتار دیا ہے اور 1952 کے پہلی مرتبہ شرح نمو منفی رہی ہے۔ مالی سال 2019 اور 2020 میں معیشت کی شرح نمو 0.4 فیصد منفی رہی۔

یہ بھی پڑھیے

مالی سال کی پہلی سہ ماہی ، گاڑیوں کی فروخت میں81 فیصد اضافہ

معیشت کے تمام اعشارئیے خطرے کی گھنٹی بجانے لگے

شوکت ترین کو لکھے گئے خط میں اس بات کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ زیادہ شرح سود کی وجہ صنعتوں کو بینکوں کو سالانہ 1100 ارب روپے ادا کرنے پڑتے ہیںِ، یہ رقم ہمارے دفاعی بجٹ کے برابر ہے۔ زیادہ شرحوں کی وجہ سے بینک کے منافع میں 100 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

ایف پی سی سی آئی نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ قرضوں کی مس مینجمنٹ کی وجہ سے ملک کو 2500 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے جس کی اعلیٰ سطح پر انکوائری کروائی جانی چاہیے۔

آئی ایم ایف کے پروگرام کے حوالے سے خط میں لکھا گیا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے آغاز میں افراط زر کی شرح 8-9 فیصد کے لگ بھگ تھی۔ ایف پی سی سی آئی نے کہا ہے حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کو زیادہ شفاف بنائے۔ کیونکہ ملک کو بہتر مالی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

خط میں اس بات کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ قرض سروسنگ بڑھنے سے مالی سال 2019 اور 2020 میں 2709 ارب روپے زائد ادا کیے گئے۔

ایف پی سی سی آئی نے خط میں لکھا ہے کہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ حکومت 500 ارب روپے کے مزید لگانے جارہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ہماری پروڈکشن پر لاگت بڑھ جائے گی جس سےہم عالمی منڈیوں میں اپنی اشیاء مناسب منافع پر فروخت نہیں کرسکیں گے۔ ملک کو بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ، انڈسٹری اور لوگوں پر زیادہ ٹیکس لگانا درست فیصلہ نہیں ہے۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ قرضوں کی شرح سود میں بلاجواز اضافے کی اعلیٰ سطح پر انکوائری ہونے چاہیے۔ قرضوں کو مختصر مدتی پروسیس سے نکال کر طریل مدتی پروسیس کی جانب منتقل کیا جائے۔

متعلقہ تحاریر