جنگ گروپ کے انگریزی اخبار اور نیوز چینل کی غلطیوں پر عوامی تنقید

انگریزی اخبار 'دی نیوز' کے مدیر نے شاید خبر پڑھے بغیر ہی شائع کردی اور نیوز چینل 'جیو' کے پہلے سے ریکارڈ کیے گئے پروگرام میں سے منتازع حصہ نہیں نکالا گیا۔

پاکستان کا سب سے بڑا ذرائع گروپ ‘جنگ’ کے انگریزی اخبار ‘دی نیوز’ اور نیوز چینل ‘جیو’ نے فاش غلطیاں کیں جس پر فوراً ہی تنقید شروع ہوگئی۔

تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے جیو نیوز کے پروگرام خبرناک میں میزبان بنتے ہی ایک غلطی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ‘بھوکے ننگے لوگ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے عوامی اجتماعات میں شریک ہیں’۔ خبرناک پروگرام ریکارڈ کرکے نشر کیا جاتا ہے لیکن چینل نے اس حصے کو نکالے بغیر ہی نشر کردیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ خبرناک کے نشر مکرر اور سوشل میڈیا پر بھی اُس غلطی کو درست نہیں کیا گیا۔

یہ ویڈیو کلپ وائرل ہوئی جس کے بعد ذرائع ابلاغ کے کارکنان اور سندھ کے باسیوں نے بھی اس پروگرام کی سرزنش کی۔

اسی طرح جنگ گروپ کے انگریزی اخبار ‘دی نیوز’ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں ایک خبر شائع کی جو اتوار کو اسلام آباد کلب میں ناشتے کے لیے گئے تھے۔

دی نیوز

اِس خبر کا عکس اور لنک انٹرنیٹ پر وائرل ہوگیا جسے سوشل میڈیا پر ہزاروں افراد نے شیئر کیا اور اپنی سمجھ کے مطابق اُس پر آراء بھی دیں۔ خبر کی جانچ پڑتال کے ذمہ دار مدیران نے اس میں ہجے اور گرامر کی غلطیوں کو نظرانداز کردیا۔

صحافی عمر قریشی نے دی نیوز کی ہجے کی غلطی پر تنقید کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ کیا جسے شہزاد چوہدری نے کوٹ ٹوئٹ بھی کیا۔ شہزاد چوہدری نے لکھا کہ یہ کون سکھائے گا؟ یہ پڑھنا شرمناک ہے۔ یہ زبان اور علم دونوں کے ساتھ مذاق ہے۔

غلطیوں کا سلسلسہ چلتا رہا، رکا نہیں تھما نہیں۔ منگل کے روز انڈیا میں کسانوں نے احتجاج کیا اور لال قلعے پر ’نشان صاحب‘ نامی پرچم لہرایا تو جیو نیوز نے ایک بار پھر غلطی کردی۔ کسانوں کے لہرائے گئے پرچم پر ‘نشان صاحب’ بنا ہوا تھا جسے جیو نیوز نے خالصتان کا پرچم لکھ دیا اور کافی دیر گزر جانے کے باوجود اُسے درست نہیں کیا گیا۔

انڈیا کی صحافی رانا ایوب نے اپنی ٹوئٹ میں نشان صاحب کو خالصتان سے ملانے کو شرمناک قرار دیا ہے۔

اِن سنگین غلطیوں کی وجہ سے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر جنگ گروپ کے انگریزی اخبار ‘دی نیوز’ اور نیوز چینل ‘جیو’ پر تنقید کی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی صحافیوں کو مالکان کے غیر منصفانہ سلوک کا سامنا

متعلقہ تحاریر