مسلم لیگ (ن) کے لیے معاشی نہیں سیاسی حالات بھی ابتر ہیں ، رہنماؤں کا انکشاف
مسلم لیگ نون کے سینئر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ منی بجٹ کے بعد مسلم لیگ نون کی مقبولیت کو شدید نقصان ہوا ہے اور عوامی نمائندے اپنے حلقوں میں جانے اور عوام کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہے۔
وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی کرسی ڈگمگانے لگی، پارٹی میں اختلافات کیوں اور الیکشن پر اس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں، انکشافات سے بھرپور تحریر حاضر ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے منی بجٹ لانے کے فیصلے کی نہ صرف پی ڈی ایم میں مخالفت کی جارہی بلکہ مسلم لیگ نون میں بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو آڑھے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔
منی بجٹ میں سیلز ٹیکس کی شرح بڑھنے سے مہنگائی کے نئے طوفان نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پالیسیز کی قلعی کھول دی ہے، وزیر اعظم شہباز شریف کو پارٹی کے سینئر رہ نما یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر عوام کے لیے اسی طرح کی مشکلات کھڑی کرنی تھیں تو ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کو کیوں ہٹایا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
الیکشن کمیشن کا صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو جواب الجواب
سگریٹ فروش مافیا نے حکومتی ٹیکس کے برعکس زائد رقم وصول کرنا شروع کردیا
مفتاح اسماعیل کا موقف ہے کہ انہوں نے اکتوبر 2022 کے بعد حالات کنٹرول کرلینے تھے لیکن انہیں کام مکمل کرنے نہیں دیا گیا، انہوں نے ستمبر میں پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا اور اکتوبر کے بعد معاشی استحکام کی جانب بڑھنا تھا۔
مسلم لیگ نون کے اہم رکن قومی اسمبلی اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین اور معروف صنعت کار قیصر احمد شیخ نے کہا ہے کہ منی بجٹ لاکر حکومت نے انہیں الیکشن لڑنے کے قابل نہیں چھوڑا، سیلز ٹیکس کی شرح 18 فیصد کرنا کونسی معاشی حکمت عملی یے۔
قیصر احمد شیخ کا کہنا ہے کہ منی بجٹ کے بعد مسلم لیگ نون کی مقبولیت کو شدید نقصان ہوا ہے اور عوامی نمائندے اپنے حلقوں میں جانے اور عوام کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہے۔
منی بجٹ کی پارٹی میں مخالفت کی باتیں وزیر اعظم شہباز شریف تک پہنچا دی گئی ہیں اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی مداخلت اور درخواست پر شاہد خاقان عباسی کی گذشتہ ہفتے لاہور میں مریم نواز سے کئی گھنٹے کی ملاقات ہوئی ہے۔
اس ملاقات میں مریم نواز نے شاہد خاقان عباسی کے شکوے دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ، جس کے بعد شاہد خاقان عباسی اتوار 19 فروری کو مسلم لیگ نون کے راولپنڈی جلسے میں شریک ہوئے۔
پارٹی رہ نماؤں کا کہنا ہے منی بجٹ نے الیکشن لڑنے کے قابل نہیں چھوڑا اور اب چند ماہ بعد پھر بجٹ آنا ہے اس لیے مسلم لیگ نون کو وزیر خزانہ کی سیٹ پر کسی رکن قومی اسمبلی کو بٹھانا چاہئے، براہ راست عوامی نمایندہ منتخب ہونے والا عوام کے مسائل بہتر سمجھ سکتا ہے۔
300 دنوں میں حکومت نے عوام کو مہنگائی کے سوا کچھ نہیں دیا اور آٹے، دالیں، گھی اور چاول سمیت روزمرہ کی استعمال کی اشیاء کے ریٹ کئی گنا بڑھ چکے ہیں، بجلی اور گیس کے بلوں نے عوام کو صبر کا پیمانہ آخری حد کو پہنچا دیا ہے۔
مسلم لیگ نون کے رہنماؤں نے 15 فروری کے رات پیٹرول اور ڈیزل کے دام بڑھنے پر بھی وزیراعظم کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا ہے اور ایسے میں منی بجٹ کی منظوری کے بعد مسلم لیگ نون کو اس فیصلے کی سب سے زیادہ سیاست قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے، حکومت میں شامل دیگر اتحادی جماعتیں حکومت میں رہ کر بھی اس کی سیاسی قیمت چکانے سے محفوظ ہیں۔









