عمران خان پر قاتلانہ حملہ: معاملہ اب عدالت میں حل ہوتو بہتر ہے

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان پہلے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کرلیں کہ انہوں نے کیا حکمت عملی ترتیب دینی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے صدر کچھ کہہ رہے ہیں جبکہ  سیکریٹری جنرل اور سینئر نائب صدر کا موقف کچھ ہے۔

آئی ایس پی آر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف سیکریٹری جنرل اسد عمر اور سینئر نائب صدر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر عمران خان کو لگتا ہے کہ ان پر قاتلانہ حملے میں کوئی فوجی افسر ملوث ہے تو انہیں اپنی مرضی کی ایف آئی آر کٹوانے کا حق ہونا چاہیے، جبکہ دوسری جانب سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا ہے کہ میں عمران خان سے کہا تھا کہ آپ ایف آئی آر ضرور کٹوائیں مگر کسی فوجی افسر کے خلاف نہیں ، کیونکہ اس سے اداروں کی بدنامی ہوگی۔

تحریک  انصاف کی سینئر قیادت کی جانب سے یہ بیان انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے پی ٹی آئی کے سربراہ پر "بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر کے خلاف انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزامات” لگانے کے بعد سامنے آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وزیراعظم شہباز شریف کے ٹوئٹ کے جواب میں عمران خان نے متعدد سوالات اٹھا دیئے

تحریک انصاف نگراں وزیراعلیٰ کےپی اور پنجاب کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ کرے گی، فواد چوہدری

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی فائدے کے لیے فوجی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے بے بنیاد الزامات کا بدقسمتی اور افسوسناک رجحان گزشتہ ایک سال سے جاری ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ” ایک سال سے وتیرہ رہا ہے کہ فوجی اور انٹیلیجنس افسران کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، متعلقہ سیاسی رہنما جھوٹے الزامات کے بجائے قانونی راستہ اختیار کریں۔ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی اور سیاسی فائدے کے لیے جھوٹ پر مبنی سنسنی خیز پروپیگنڈا پھیلایا جارہا ہے۔

پاک فوج کے ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ بطور عسکری ادارہ، ان بے بنیاد الزامات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، اس بات پر زور دیتے ہیں وہ ایسے بیانات اور پروپیگنڈے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں ، جو صریح طور پر جھوٹے اور بدنیتی کے عزائم پر چلائے جاتے ہیں۔

اپنے ایک ٹوئٹر بیان میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "ISPR نے حیران کن پریس ریلیز جاری کی ہے، اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان پر قاتلانہ حملہ میں کوئ آفیسر ملوث ہیں تو آزادانہ اور شفاف تحقیقات کے ذریعے ان کو مطمئن کیا جانا چاہئے کہ ایسا نہیں ہے، لیکن الزام کی تحقیقات سے انکار اور ایسی پریس ریلیز سے آپ بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں آپ قانون سے بالاتر ہیں ایسے رویے قوموں کیلئے تباہ کن ہیں۔”

ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی سیکریٹری جنرل اسد عمر نے کہا ہے کہ "وہ آئی ایس پی آر کے بیان سےمکمل اتفاق کرتے ہیں، الزامات کے حل کیلئے قانونی راستہ اختیار کیا جائے۔”

رہنما تحریک انصاف اسد عمر نے مزید لکھا ہے کہ "عمران خان نے ایف آئی آر درج کرانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی کوشش کی، اس قانونی راستے کی حمایت کرنے والے ادارے کا یہ مثبت قدم ہو گا۔”

دوسری جانب گذشتہ رات اے آر وائی کے پروگرام "خبر مہر بخاری کے ساتھ” میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور پی ٹی آئی کے صدر چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا ہے کہ "عمران خان پر جب حملہ ہوا تو میں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ آپ کسی جج کے خلاف ایف آئی آر نہیں دے سکتے ، اور نہ ہی آپ فوج یا فوج کے ادارے کے خلاف ایف آئی آر نہیں دے سکتے ، کیونکہ اس سے اداروں کی بدنامی ہو گی۔”

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان پہلے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کرلیں کہ انہوں نے کیا حکمت عملی ترتیب دینی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے صدر کچھ کہہ رہے ہیں جبکہ  سیکریٹری جنرل اور سینئر نائب صدر کا موقف کچھ ہے۔

متعلقہ تحاریر