حامد میر اور کامران خان کے درمیان ٹوئٹر پر طویل محاذ گرم

کامران خان نے حامد میر کی 31 جنوری کی ٹوئٹ پر جواب دیا ہے۔

پاکستان دو بڑے میڈیا گروپس کے سینئر ترین صحافیوں حامد میر اور کامران خان کے درمیان ٹوئٹر پر طویل محاز گرم ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سینئر صحافی اور اینکر پرسن اور دنیا میڈیا گروپ کے صدر کامران خان نے حامد میر اور سلیم صافی کی ٹوئٹس شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ برس ستمبر سے عوام کو ایک ہی بات سمجھا رہے تھے کہ حزبِ اختلاف کی حکومت مخالف تحریک کو سنجیدہ نہ لے کیونکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہیں۔ ہنسی آتی تھی ان کے عوامی بیانات پر اور آج بھی آتی ہے۔’

کامران خان نے اپنے ٹوئٹ میں دو سینئر صحافیوں سلیم صافی اور حامد میر کی ٹوئٹس کا حوالہ دیا جنہیں پی ڈی ایم کی تحریک سے امیدیں تھیں۔ جیو نیوز کے سینئر اینکر پرسن حامد میر نے 31 جنوری کو اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ ‘پی ڈی ایم نے 31 جنوری تک وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا اور آج پی ڈی ایم استعفے کو بھول کر براڈشیٹ کی بات کر رہی ہے۔ پچھلے دو ماہ میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ نواز شریف اور مولانا دونوں کا لب و لہجہ بدل گیا ہے۔ اب اسٹیبلشمنٹ سے کوئی لڑائی نہیں۔’

جبکہ سینئر سلیم صافی نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ ‘آج کے بعد بلاول بھٹو اور حزبِ اختلاف کے دیگر اراکین اسمبلی اسی طرح سر جھکا کر ایوان میں جائیں گے جس طرح دھرنوں اور استعفوں کے بعد عمران خان اور اسد عمر وغیرہ سر جھکا کر اسمبلی میں واپس گئے تھے۔ خواجہ آصف کی طرح آج پی ٹی آئی والوں کے پاس جواز ہے کہ وہ انہیں طعنہ دیں کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔’

اس سے قبل بھی اکتوبر 2020 میں بھی کامران خان اور حامد میر کی ٹوئٹس سے غیریقینی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

سینئر صحافیوں کی ٹوئٹس سے غیر یقینی صورتحال

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے خاوند کیپٹن (ر) صفدر کو پولیس نے مزار قائد کے احاطے میں نعرے بازی کرنے پر گرفتار کرلیا تھا۔ جس کے بعد حامد میر نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ سندھ حکومت نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو آگاہ کیا ہے کہ صوبے کے آئی جی پولیس کو رات 4 بجے مبینہ طور پر رینجرز نے اغواء کیا اور اُنہیں سیکٹر کمانڈر کے دفتر لے جایا گیا ہے جہاں ایڈیشنل آئی جی پہلے سے موجود تھے۔ حامد میر کے ٹوئٹ کے مطابق وہاں آئی جی سندھ سے زبردستی محمد صفدر کو گرفتارکرنے کے احکامات جاری کروائے گئے۔

اِس ٹوئٹ کے کچھ ہی دیر بعد کامران خان نے بھی چند ٹوئٹس کیے۔ اپنے ٹوئٹر پیغامات میں کامران خان نے لکھا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جس ولولے کا اظہار کر رہے تھے وہ اب اُسی ولولے کے ساتھ یا تو وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا استعفیٰ منظور کریں یا پھر آئی جی کو اغوا کرنے والوں کو سزا دلوائیں۔

اپنے ایک اور ٹوئٹر پیغام میں کامران خان نے لکھا تھا کہ ‘پی ڈی ایم اندرونی کھیل شروع مریم بی بی آئندہ سندھ آنے کی دعوت سوچ کر قبول فرمائیں۔ ناقابل تردید ذرائع بتاتے ہیں کہ آئی جی سندھ مشتاق مہر ہنستے کھیلتے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے تمام مراحل میں اپنے سینئر اہلکاروں کے ساتھ شریک رہے۔ اغوا وغیرہ کی کہانی مریم بی بی کی تسلی کے لیے ہے۔

تاہم اب ایک بار پھر کامران خان نے گڑے مردے اُکھاڑتے ہوئے حامد میر کے 31 جنوری کے ٹوئٹ کا جواب دیا ہے۔

متعلقہ تحاریر