پی ڈی ایم صاف چھپتی بھی نہیں سامنے آتی بھی نہیں
پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ میں جلسے کے بعد سے اب تک اس اتحاد کی پوزیشن غیر واضح ہے۔ پی ڈی ایم کا میثاق کیا نواز شریف کا بیانیہ ہوگا؟ یا پھر آصف زرداری کی مفاہمتی سیاست بازی لے جائے گی؟
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نا تو کھل کر اپنا بیانیہ سامنے لارہی ہے اور نہ ہی سیاسی میدان میں کہیں چھپتی دکھائی دے رہی ہے۔ گوجرانوالہ جلسے میں نواز شریف نے جب نام لے فوج کے سربراہ سے سوال کیا تو پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کو زور کا جھٹکا لگا ۔ خود چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی ‘دھچکے’ کے بارے میں بتاچکے ہیں۔
پی ڈی ایم کے حالیہ اجلاس میں نواز شریف کے بیانیے پر پیپلز پارٹی اور اے این پی کی جانب سے اعتراضات کی گونج بھی سنائی دی۔
یہ بھی پڑھیے
پیپلز پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ سے دور کیوں رہنا چاہتی ہے؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اتوار کو ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں پی ڈی ایم کو اپنے اہداف واضح رکھنے کی تجویز دے دی ہے۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ پی ڈی ایم کو فی الحال نئے محاذوں کو نہیں کھولنا چاہیے۔
اے این پی کے رہنما امیرحیدر خان ہوتی نے رہنماؤں کو جلسوں میں اپنا لہجہ تبدیل کرنے کا مشورہ دے دیا ہے۔ انہوں نے خبردار بھی کیا کہ آج جو لوگ ن لیگ کے بیانیے کے ساتھ ہیں ان کا وہی حال ہوگا جو عوامی نیشنل پارٹی کا ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
کوئٹہ میں پی ڈی ایم کا جلسہ اپوزیشن اتحاد کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا؟
تاہم اس اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سوال اٹھاچکے ہیں کہ جب جلسوں میں وزیراعظم اور صدر کا نام لیا جا سکتا ہے تو کسی ادارے کے ملازم کا نام کیوں نہیں؟
اِس ساری صورتحال میں پی ڈی ایم جلد ہی نئے میثاق کا مسودہ منظر عام پر لانے کو تیار ہے۔ اس حوالے سے تمام 11 جماعتیں 13 نومبر کو اپنی تجاویز پیش کریں گی۔ 14 نومبر کو اسلام آباد میں پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ سالوں بعد جب میثاق جمہوریت کی تاریخ دوبارہ رقم ہونے جارہی ہے تو کیا پی ڈی ایم کا میثاق نواز شریف کا بیانیہ ہوگا؟ یا پھر آصف زرداری کی مفاہمتی سیاست بازی لے جائے گی؟