سینیٹ انتخاب میں مفاہمت کی سیاست رنگ لے آئی
چوہدری پرویز الہیٰ کا فارمولا کامیاب ہوگیا اور پنجاب میں سینیٹ کے تمام امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوگئے۔
سینیٹ انتخاب کے لیے پنجاب میں مفاہمت کی سیاست رنگ لے آئی۔ حکومت اور حزبِ اختلاف میں مشترکہ مفادات کے تحت اتحاد کے ساتھ چوہدری پرویز الہیٰ کا فارمولا کامیاب ہوگیا اور پنجاب میں سینیٹ کے تمام امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوگئے ہیں۔
سیاسی حریف ویسے تو ایوانوں اور جلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف شعلہ بیانی سے کام لیتے ہیں لیکن جب بات مشترکہ مفادات کی ہو تو حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں اپنے اپنے مفادات کے لیے یکجا ہو جاتے ہیں۔
ایسا ہی سینیٹ انتخاب کی گرما گرمی کے دوران صوبہ پنجاب میں دیکھنے میں آیا ہے۔ چند روز قبل تک حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایوان بالا کے انتخاب کے اکھاڑے میں ایک دوسرے کے امیدواروں کو چت کرنے کے بیانات دیتے تھے لیکن سینیٹ انتخاب کے معاملے پر اب مفاہمت کی سیاست رنگ لے آئی ہے۔ پنجاب نے تو ایک روز میں ہی ملکی سیاست کا رخ بدل دیا ہے۔ صوبے میں سینیٹ کی تمام 11 خالی نشستوں پر انتخاب کے بجائے پنجاب میں سینیٹ کے تمام امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوگئے ہیں۔
سینیٹ کے امیدوار بلامقابلہ کیسے منتخب ہوئے؟
صوبہ پنجاب میں مفاہمت کی سیاست کے تحت سینیٹ کے بلامقابلہ انتخاب کی اندرونی کہانی کچھ یوں ہے کہ جس وقت مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف سینیٹ انتخاب کے لیے سیاسی بیانات داغ رہے تھے اس وقت پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ اپنے فارمولے پر کام کر رہے تھے۔ چوہدری پرویز الہیٰ دونوں جماعتوں کی قیادت کے اہم رہنماؤں سے رابطے میں تھے اور سینیٹ انتخاب کے معاملے کو افہام و تہفیم سے حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
چوہدری پرویز الہیٰ اپنی مفاہمت کے ذریعے اپنے امیدوار کامل علی آغا کو کامیاب بھی کروانا چاہتے تھے کیونکہ چوہدری پرویز الہیٰ جانتے تھے کہ پنجاب اسمبلی میں 10 نشستوں کے ذریعے اور حکومت کے اتحادی ہونے کے باوجود ان کے امیدوار کو ناکامی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو 50 ,50 کی آپشن میں مکمل طور پر قائل کیا۔ وہ بخوبی کامیاب ہی نہیں ہوئے بلکہ دونوں جماعتوں کے 5، 5 امیدوار بلا مقابلہ کامیاب کروانے کے ساتھ ساتھ اپنا امیدوار بھی بلا مقابلہ کامیاب کروالیا۔
پنجاب کی کل 11 نشستوں پر انتخاب ہونا تھا مگر صوبے میں سینیٹ کی تمام 11 خالی نشستوں پر انتخابات بلا مقابلہ ہوگئے ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ نے اس سلسلے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری پرویز الہیٰ نے عطاءاللہ تارڑ کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے رابطہ کیا اور پرویز الہٰی نے سابق صدر آصف علی زرداری سے بھی فون پر رابطہ کیا۔ اس کے علاوہ پرویز الہیٰ مسلسل وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت حکومت کے اعلیٰ حکام کے ساتھ بھی رابطے میں تھے۔
پرویز الہیٰ کے رابطے کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی نے پنجاب سے اپنا امیدوار واپس لے لیا۔ پرویز الہٰی کے رابطہ کرنے پر ہی (ن) لیگی قیادت سمیت تحریک انصاف نے اپنے امیدواروں کے کاغذات واپس لیے اور یوں سینیٹ انتخابات میں پنجاب سے تمام امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔ اِن امیدواروں میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے 5، 5 امیدوار شامل ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ (ق) یعنی چوہدری پرویز الہیٰ کے کامل علی آغا بھی کامیاب ہوئے ہیں۔
سینیٹ کی 7 نشستوں پر الیکشن ہوتا تو کیا ہوسکتا تھا؟
پنجاب اسمبلی میں کل اراکین اسمبلی کی تعداد 371 ہے لیکن اگر پارٹی پوزیشن کی طرف دیکھیں تو اراکین کا اعداد و شمار کچھ یوں ہے کہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کے پاس اس وقت کل 181، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے پاس 166 اراکین ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کے 10، پاکستان پیپلز پارٹی کے 7 اور 4 آزاد اراکین اسمبلی موجود ہیں۔ ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی 2، 2 نشستوں پر تو بلامقابلہ منتخب ہونا تھا لیکن 7 جنرل نشستوں پر الیکشن ہونا تھا اور الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہوتا تو ارکان اسمبلی کے ساتھ ہارس ٹریڈنگ ہوسکتی تھی۔ جیسے ماضی میں اراکین کی بولیاں لگا کرتی تھیں ویسے ہی اس مرتبہ بھی جوڑ توڑ اور پیسے کا استعمال ہوسکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
سینیٹ انتخاب سے قبل تحریک انصاف کے لیے بری خبریں
سیاسی حلقوں میں جو خبریں گردش کر رہی تھیں ان کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے حکومت کو اس الیکشن میں ٹف ٹائم دینا تھا جس کے تحت وہ 7 جنرل نشستوں میں سے 4 نشستیں نکال سکتی تھی۔ باقی کی 3 نشستیں یا تو پی ٹی آئی کے حصے میں آنی تھیں یا پھر 2 پی ٹی آئی اور 1 (ق) لیگ کے حصے میں آنی تھیں۔
سینیٹ انتخاب کی صورت میں کامل علی آغا کا جیتنا خاصا مشکل بھی تھا اس لیے چوہدری پرویز الہیٰ نے اپنی مفاہمت کی سیاست کے ذریعے اپنا امیدوار کامیاب کروا لیا۔
پنجاب میں کتنی نشستوں پر سینیٹ انتخاب ہونا تھا اور کون کون کامیاب ہوا؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے مطابق ٹیکنو کریٹ نشست پر مسلم لیگ (ن) کے اعظم نذیر تارڑ اور پاکستان تحریک انصاف کے بیرسٹر علی ظفر بھی کامیاب ہوگئے ہیں۔ خواتین کی 2 نشستوں سائرہ افضل تارڑ کے کاغذات واپس لینے کے بعد پی ٹی آئی کی ڈاکٹر زرقہ اور مسلم لیگ (ن) کی سعدیہ عباسی بلا مقابلہ منتخب ہوئیں۔
ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق پنجاب میں جنرل نشست پر مسلم لیگ (ن) کے افنان اللہ خان، ساجد میر اور عرفان الحق کامیاب ہوئے ہیں۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے عون عباس، اعجاز چوہدری، سیف اللہ نیازی اور (ق) لیگ کے کامل علی آغا کامیاب ہوئے ہیں۔
ان تمام امیدواروں کی کامیابی کا نوٹیفکیشن آج جاری کیا جائے گا۔
کس کس نے اپنے کاغذات واپس لیے؟
موجودہ سینیٹ کے انتخاب میں پارٹی احکامات کو مانتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے اعجاز حسین مہناس، جمشید اقبال چیمہ، زاہد حامد، سعود مجید، سیف الملوک کھوکھر، محمد بلیغ الرحمان، محمد خان مدنی، محمد عظیم الحق اور پاکستان تحریک انصاف کے ظہیر عباس کھوکھر اور عمر سرفراز چیمہ اور خواتین کی نشستوں میں سائرہ افضل تارڑ نے کاغذات نامزدگی واپس لیے۔ اس طرح سے پنجاب کے 11 امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیے
سینیٹ انتخاب اب جہانگیر ترین بمقابلہ آصف زرداری ہوگا
دوسری طرف ملک بھر میں سینیٹ کی 48 نشستوں پر پولنگ 3 مارچ کو ہوگی جس میں پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی سمیت حزبِ اختلاف کی 11 جماعتوں پر مشتمل اتحاد کے درمیان مقابلہ ہے۔
پیپلزپارٹی پنجاب میں خاموش مگر وفاق میں سرگرم
پنجاب میں 7 نشستوں پر اختلاف کرنے والی پیپلز پارٹی نے صوبے میں تو اپنا امیدوار (ن) لیگ اور چوہدری پرویز الہیٰ کے حق میں بٹھا دیا مگر ان کی مکمل توجہ اسلام آباد کی جنرل نشست پر کھڑے ہونے والے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے الیکشن پر ہیں۔ اس کے لیے 24 فروری کو یوسف رضا گیلانی نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے نیب پیشی کے موقع پر ملاقات کی اور تعاون کی درخواست کی۔
دوسری طرف 25 فروری کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا وفد بشمول یوسف رضا گیلانی کے جاتی امراء میں مریم نواز شریف سے ملاقات اور سینیٹ الیکشن کی حکمت عملی پر مشاورت کے لیے پہنچا۔ اور یوسف رضا گیلانی اس وقت حزبِ اختلاف کے جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) کے مشترکہ امیدوار ہیں۔ پنجاب کا معرکہ تو سر کرلیا مگر اسلام آباد کا معرکہ سر کرنے کے لیے اس وقت سیاسی جمع تفریخ جاری ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوجائیں گئے۔