کرونا کے مریضوں کے لیے صحت انصاف کارڈ ایک تحفہ
صوبہ خیبرپختونخوا کے نجی اور سرکاری اسپتالوں میں اب کرونا کے مریض اپنا علاج صحت کارڈ سے مفت کروا رہے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں کرونا کی وباء سے متاثرہ مریضوں کا علاج صحت انصاف کارڈ کے ذریعے مفت کیا جارہا ہے اور مریضوں کا کہنا ہے کہ یہ کارڈ ان کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے صحت کارڈ کا اجراء ان میگا منصوبوں میں سے ایک ہے جس سے آئندہ کے انتخابی مہم میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ابتداء میں اس کارڈ کے حوالے سے کئی خامیوں اور کمزوریوں کی شکایات سامنے آئیں۔ کہیں سرکاری اسپتالوں میں فنڈز نہ ہونے سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو کہیں نجی اسپتالوں کی زیادہ کٹوتی نے حزب اختلاف کو اس منصوبے پر تنقید کا موقع فراہم کیا تاہم اب اس منصوبے کے ثمرات عوام کو ملنا شروع ہوچکے ہیں اور نجی اور سرکاری دونوں سیکٹرز میں اب مریض اپنا علاج اس کارڈ سے کروا رہے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور سمیت پورے صوبے میں بشمول ضم شدہ قبائلی اضلاع ہسپتالوں میں صحت انصاف کارڈ کا استعمال زیادہ ہوچکا ہے۔ صوبائی وزیر صحت تیمور جھگڑا کے مطابق ’صحت کارڈ کا اجراء بہت پہلے ہوچکا ہے لیکن کسی کو اس کے استعمال کا ادراک نہیں تھا۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ لوگ اس سے اتنا مستفید ہورہے کہ جہاں پہلے 90 مریض علاج کرتے تھے اب وہاں مہینے کے 900 مریض اس کارڈ کا استعمال کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تمام صوبے کے عوام کے لیے یہ کارڈ کسی نعمت سے کم نہیں کیونکہ اب کرونا جیسے مرض کے لیے بھی اس کارڈ سے علاج کیا جاسکے گا۔ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور نجی اسپتالوں میں کرونا کا علاج کافی مہنگا ہے۔ ایسے میں صحت انصاف کارڈ کو نجی اسپتالوں میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور مشکل میں اپنے مریض کی جان بچائی جاسکتی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
پاکستان میں کرونا ویکسین کی بلیک مارکیٹ کا انکشاف
ایک پریس کانفرنس کے دوران تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ ’ہمارے صحت کے نظام خصوصاً پشاور، سوات اور مردان پر زیادہ دباؤ ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ان اضلاع کے 10 اسپتالوں میں 200 بیڈز کا اضافہ کریں۔ اگر ضرورت پڑی تو 500 بیڈز پر مشتمل لیڈی ریڈنگ اسپتال بھی کرونا کا علاج شروع کردے گا۔‘
عوام کی جانب سے صحت انصاف کارڈ سے دیگر امراض کے ساتھ ساتھ کرونا کا علاج کروانے کے فیصلے کو بھی سراہا جارہا ہے اور یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ جہاں جہاں کرونا کا علاج اس کارڈ سے نہیں ہورہا حکومت اس کو ممکن بنائے۔
اگر صحت انصاف کارڈ سے ہٹ کر دیکھا جائے تو پشاور میں کرونا کے بدترین حالات اپنی جگہ اس وقت محکمہ صحت کو اور بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے اور خود اس محکمے کے اہلکار اور ملازمین سنگین حالات کے باوجود ایس او پیز کی پرواہ کیے بغیر سراپا احتجاج ہیں۔ 3 روز سے مسلسل نرسزز اور دیگر عملہ اپنے پروموشن سروس اسٹرکچر اور دیگر مطالبات کے لیے صوبائی اسمبلی کے سامنے دھرنا دیے بیٹھا ہے۔
نرسز اور دیگر عملے نے اسپتالوں میں تمام تر سروسز کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے لیکن احتجاج کے بعد بھی ان کی شنوای نہیں ہورہی ہے۔ مظاہرین نے پشاور پریس کلب تک ریلی بھی نکالی ہے۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے۔ مظاہرین نے حکومت اور محکمہ صحت کے خلاف نعرے بازی کی اور ہاتھوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا۔
راستے میں جگہ جگہ مظاہرین ریلی کے شرکاء سے خطاب بھی کرتے رہے۔ ریلی کے بعد مظاہرین نے واپس اسمبلی روڈ پر پہنچ کر دھرنا دیا اور اپنے مطالبات کی منظوری تک ہڑتال کا اعلان بھی کیا۔