نویں پاس ویٹر سے بی ایس اکاؤنٹگ اینڈ فننانس تک کا کٹھن سفر

انصار علی نے انتھک محنت سے اب زیبسٹ اسلام آباد سے اکاونٹنگ اینڈ فننانس میں اپنا بی ایس مکمل کر لیا ہے

پاکستان کے شہر لاہور میں ذاکر تکا پر کام کرنے والے نویں پاس نوجوان ویٹر انصار علی نے کس طرح دیگر نوجوانوں کی مدد سے زیبسٹ جیسے ادارے سے اکاؤنٹنگ اینڈ فننانس میں بی ایس کیا ہے اور اب وہ اپنی زندگی میں نئے خواب دیکھ رہے ہیں۔

اس خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ انگریزی روزنامے دی نیوز کے صحافی سالار خان نے 25 ٹوئٹس پر مبنی ایک ٹوئٹ ٹریل شیئر کی ہے جس میں اس واقعے کی تفصیل ہے۔ سالار خان نے یہ کہانی جس طرح لکھی ہے اسی طرح پیش خدمت ہے۔

یہ آٹھ سال پہلے کی انصار علی کی تصویر ہے۔ اس وقت وہ  لاہور میں ذاکر تِکا کی لمز برانچ میں ویٹر تھا جسے نویں جماعت کے بعد اسکول چھوڑنا پڑا تھا۔لیکن اب 2 مہینوں میں وہ اکاؤنٹنگ اینڈ فننانس میں بی ایس کے ساتھ زیبسٹ سے فارغ التحصیل ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

رضوان ویگیو کا حجام سے ڈاکٹر بننے کا سفر

یہ 2013 کی بات ہے کہ جب وہ بھی لمز میں طالب علم تھے اور کیمپس میں کام کرنے والے مختلف افراد پر ہیومنز آف کمز کے عنوان سے لمز پوٹو گرافک سوسائٹی کے لیے ایک سیریز کر رہے تھے۔

سالار خان لکھتے ہیں کہ انصر ہمیشہ مسکراتا رہتا تھا جب وہ ایک آڈر لے کر دوسرے آّڈر کی جانب بڑھتا تھا۔ وہ سب کا پسندیدہ تھا۔ اس مسکراہٹ کے پیچھے چھپے درد کا کسی شبہ بھی نہیں تھا۔

انصار کو اسکول پسند تھا لیکن حالات سے مجبور ہوکر اس نے اسکول سے منہ موڑ لیا۔ لیکن ان تمام طلباء کے درمیان کسی یونیورسٹی میں کام کرنے کے لئے اسکول کو ترک کرنا ایک ظلم لگتا تھا۔

سالاخان کے مطابق ہم صرف چند بچے تھے جن میں سے زیادہ تر مراعات یافتہ طبقے سے تھے لیکن چند طالب علم اسٹوڈنٹ بجٹ پر بھی پڑھ رہے تھے۔ تو ہم انصار کو کھلے دل سے ٹپ دے کر اپنے افسوس کا ازالہ کرتے تھے۔

دو سال تیزی سے گزر جاتے ہیں سالار خان اسٹوڈنٹ باڈی کے صدر بن چکے تھے۔ جب ان کا دور اقتدار ختم ہورہا تھا اور وہ پارٹنگ گفٹ جیسی روایت پر کام کررہے تھے تو اُنہوں نے سوچا کہ وہ انصار کو دوبارہ اسکول میں داخل کرائیں گے۔

سالار خان نے ایک رات ذاکر تکا میں ہی انصار کے ساتھ گفتگو کی اور اسے بتایا کہ وہ انصار کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ انصار کا جوش و خروش انتہا کو پہنچ گیا۔

یہ تو واضح تھا کہ جو سالار اور انصار سوچ رہے تھے وہ کہیں زیادہ پیچیدہ تھا۔ انصار کی فیسز کا بندوبست ہی جافی نہیں تھا بلکہ اُن کے کنبے کے لئے بھی رقم مہیا کرنی تھی کیونکہ تعلیم دوبارہ شروع کرنے کے لیے اسے اپنا کام چھوڑنا پڑتا۔

اس کام کے لیے سالار کو انصار کے گھر ننکانہ صاحب جانا پڑا  اور وہاں جاکر اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ انصار کے گھر اتنی رقم پہنچتی رہے گی جتنی وہ اس وقت کماتے تھے جس پر انصار کی والدہ راضی ہو گئیں۔

انصار کو مہانہ 30 ہزار روپے کی ضرورت تھی اور انہیں ایف اے / ایف ایس سی اور اس کے بعد یونیورسٹی جانا تھا۔ اگر اس رقم میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے تو یہ کل ملا کر 20 لاکھ روپے بنتی تھی۔ بظاہر ناممکن نظر آنے والے اس کام کو ہم نے آگے بڑھانے کا سوچا۔

اس کے لیے لمز کے کیمپس میں گو فنڈ می کے نام سے چندے کے باکس رکھ دیئے گئے اوراس کے ایک ہفتے کے بعد انصار نے ذاکر تکہ سے کام کرنا چھوڑ دیا اور اسکول جانا شروع کر دیا۔

انصار علی کو ہر قدم پر نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ 4 سال اسکول سے باہر رہنے کے بعد انصار 22 برس کی عمر میں صرف اپنے انٹر کے امتحانات پرائیویٹ دے سکے اور 800 نمبرز لے کر اے گریڈ سے ایف اے کر لیا۔

انصار علی

گھر کا کرایہ بچانے کے لیے انصار سالار خان کے گھر منتقل ہو گئے جہاں وہ رات گئے تک پڑھائی کرتے۔

لمز کے طلباء نے جو رقم جمع کی تھی وہ ایک سال ایف اے اور یونیورسٹی کے پانچ سالوں میں سے صرف ڈھائی سال کا خرچہ تھی۔ یہ کام ان طلبا نے کیا جو فارغ التحصیل ہو چکے تھے اور جابز کر رہے تھے۔ ساتھ ساتھ تنقید بھی ہوتی رہی کہ ایک انسان پر اتنا کیوں خرچ کریں؟ وہ کاہل ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ

لیکن اب انصار کو یونی ورسٹی جانا تھا اور اچنہوں نے اکاؤنٹنگ پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا داخلہ زیبسٹ میں جزوی اسکالر شپ پر ہوگیا۔ وہاں انہیں ذبان کا مسئلہ درپیش ہوا جس کے لیے انگلش لینگویج کورس کیا گیا۔

انصار علی نے انتھک محنت سے اب زیبسٹ اسلام آباد سے اکاونٹنگ اینڈ فننانس میں اپنا بی ایس مکمل کر لیا ہے لیکن سالار خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے جو کیا وہ کیا لیکن اب عوام بھی اس سفر میں انصار علی کا ساتھ دے سکتے ہیں کیونکہ اب ان ملازمت کی ضرورت ہے۔ گوکہ وہ اسی فرم میں ملازمت کر رہے ہیں جہاں انہوں نے انٹرنشپ کی تھی لیکن شایفد اب اگر کوئی اور ان کی مدد کرے تو وہ زیادہ اچھی ملازت اور زیادہ اونچی اڑان بھر سکیں۔

متعلقہ تحاریر