توہین عدالت کیس ، سابق چیف جج جی بی رانا شمیم کا اصل امتحان آج
عدالت نے 7 دسمبر کے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ بادی النظر میں لگتا ہے کہ رانا محمد شمیم نے خود ہی بیان حلفی لیک کروایا ہے اور اس میں نیک نیتی بھی شامل نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں آج سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کی جانب اصل بیان حلفی جمع نہ کرانے کی صورت میں اُنہیں ، صحافی انصار عباسی ، جنگ گروپ کے مالک اور دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف کو توہین عدالت کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
رانا محمد شمیم کے بیان حلفی کو بنیاد بنا کر "دی نیوز” اخبار نے سینئر صحافی انصار عباسی کی رپورٹ پر ایک اسٹوری چھاپی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز کی بیل روکنے کے لیے کسی تیسرے جج کو کہا تھا، جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تھی۔ رانا محمد شمیم کو آج اپنا اصل بیان حلفی عدالت میں جمع کرانا ہے بصورت دیگر ان پر اور دیگر افراد پر توہین عدالت لگ سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
توہین عدالت کیس، ن لیگ نے رانا محمد شمیم کو تنہا چھوڑ دیا
ایڈووکیٹ جنرل کا رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے کمشنر کے نام خط
یہ انکشافات 10 نومبر کو ‘دی نیوز’ کے تفتیشی رپورٹر انصار عباسی کی رپورٹ میں شائع ہونے والے ‘لیک’ حلف نامے میں کیے گئے تھے، جس پر رانا محمد شمیم کے وکیل نے اعتراف کیا کہ ‘لیک’ ہونے والے حلف نامے کا مواد واقعی درست تھا۔
تاہم، سابق جی بی چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوران سماعت بیان دیا تھا کہ انہوں نے عدالت میں جمع کرائے گئے حلف نامے کی کاپی نہیں دیکھی۔
رانا شمیم نے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار پر آئی ایچ سی کے جج کو کال کرکے عدالتی کارروائی میں مداخلت کے سنگین الزامات لگائے تھے جس میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی ضمانتیں مسترد کرنے کو کہا تھا۔
7 دسمبر کی سماعت کے تحریری حکم نامہ کا خلاصہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیانِ حلفی کی خبر پر توہینِ عدالت کیس میں گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے رانا محمد شمیم، میرشکیل الرحمان، صحافی انصارعباسی اور عامرغوری کو 13 دسمبر کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے 7 دسمبر کے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ بادی النظر میں لگتا ہے کہ رانا محمد شمیم نے خود ہی بیان حلفی لیک کروایا ہے اور اس میں نیک نیتی بھی شامل نہیں ہے۔
عدالت نےتحریری فیصلے میں کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حلف نامے کے مندرجات کو لاپروائی سے مرتب کیا گیا۔رانا شمیم کو حلف نامہ عدالت کے سامنے لانے کا آخری موقع دیتے ہیں۔
حکم نامے کے مطابق رانا شمیم نے موقف اختیار کیا کہ انہوں نے کسی سےحلف نامے کی کاپی شیئر نہیں کی اور نہ انصار عباسی، عامر غوری ، میرشکیل الرحمان سے حلف نامہ شیئر کیا۔
تحریری حکم نامے میں بتایا گیا کہ رانا شمیم نے الزام لگایا کہ حلف نامہ ان کی رضا مندی سے نہیں شائع ہوا، اس پورے معاملے کے ذمہ دار کے خلاف سنگین نتائج ہوسکتے ہیں، حلف نامے کے مندرجات پھیلانے کے ارادے سے جلد بازی میں شائع کئے گئے۔3 سال سے زائد خاموشی سے رانا شمیم کی ساکھ پرسنگین سوالات جنم لیتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 5 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ رانا شمیم اور میر شکیل الرحمان سمیت تمام فریقین کے جواب غیر تسلی بخش ہیں۔اس لئے بے بنیاد بیان حلفی اور غلط خبر پر کیوں نا تمام فریقین پر فرد جرم عائد کی جائے؟۔
عدالت نےاپنے حکم میں لکھا ہے کہ خبر کی اشاعت کا وقت بہت اہم ہے، کیونکہ یہ وقت ان اپیلوں سے متعلق ہے جوسماعت کیلئےمقرر تھیں، ایک اخبار کے رپورٹر اور پبلشر پربھی سوال اٹھتا ہے۔
رانا محمد شمیم کے صاحبزادے احمد حسن رانا کا تازہ بیان
سپریم کورٹ کے وکیل اور رانا شمیم کے بیٹے احمد حسن رانا نے اس سے قبل 10 دسمبر کو جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں اعتراف کیا تھا کہ اگر ان کے والد اصل حلف نامہ عدالت میں جمع کرانے میں ناکام رہے تو اس کے نتائج ضرور بھگتنا ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حلف نامہ جمع نہ کرانے کی صورت میں انہیں توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تجزیہ کاروں کی رائے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ بیان حلفی سامنے کونسا آتا ہے وہ والا جو سینئر صحافی انصار عباسی نے دی نیوز اخبار میں چھاپا تھا یا پھر کوئی دوسرا۔ اگر تو وہی بیان حلفی سامنے آتا ہے تب تو صحافی انصار عباسی ، جنگ کے مالک میر شکیل الرحمان اور ایڈیٹر انچیف کی جان خلاصی ہو جائے گی ورنہ پھر ان پر توہین عدالت کا چارج لگ سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ جو لکھوایا گیا وہ سب غلط لگ رہا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بیان حلفی وہاں لکھوایا گیا جس کا ہمارے نظام انصاف سے کچھ لینا دینا نہیں یعنی لندن میں ۔ بیان حلفی چھاپنے والوں نے بھی اس بات کی زحمت نہیں کی کہ دیکھ لیتے حقائق کیا تھے اور چھاپا کیا جارہا ہے۔