ترکی میں مہنگائی کا 20سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا،شرح54فیصد تک جاپہنچی

ترک لیرا کی قدر میں گزشتہ برس 47فیصد کمی آئی، مہنگائی کی شرح رواں سال کے آخر تک برقرار رہے گی،ماہرین

ترکی میں مہنگائی کی شرح 20 سال کی  بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ۔ ترک کرنسی لیرا کی مسلسل گرتی قدر اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے فروری میں افراط زر کی شرح اندازوں کہیں زیادہ 54.44 فیصدریکارڈ کی گئی۔

جمعرات کو ترک ادارہ شماریات کے مطابق اشیائے صرف کی قیمتوں میں گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 4.81 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ پروڈیوسر پرائس انڈیکس گزشتہ ماہ 7.22 فیصداوپر گیا جس میں سالانہ 105 فیصد اضافہ  دیکھنے میں آیا ہے ۔

یہ بھی پڑھیے۔

تجارتی خسارہ 31 ارب 95 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا، ادارہ شماریات

سعودی عرب نے دوستی نبھا دی، پاکستان کا کروڑوں ڈالر قرضہ موخر

جنوری میں توانائی کی ریکارڈ درآمدات نے ترکی کے تجارتی خسارے کو مزید بڑھا دیا ہے  جبکہ سپلائی کے خدشات اور یوکرین پر روسی حملے کے باعث  اشیا کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ خام تیل برینٹ کروڈ کی قیمت میں رواں سال اب تک  53 فیصد اضافہ ہوچکا ہے ۔

ترک صدر رجب طیب اردگان نے معاشی ماہرین کی مخالفت کے باوجود نے قرض اور برآمدات کو ترجیح دی ہے لیکن اس کے باوجود مہنگائی  قابو میں آنے کے بجائے مزید بڑھ رہی ہے۔ترکی کا مرکزی بینک ستمبر سے اب تک شرح سود کو 500 بیسز پوائنٹس کم کر کے 14فیصد پر لاچکا ہے۔

بڑھتی مہنگائی کے سبب ترک صدر اردگان کی جانب قیمتیں بڑھانے سے انکار کے باعث گزشتہ برس ترک لیر اکی قدر میں 47فیصد کی کمی آئی ہے ۔ کرنسی کی بدحالی نے ترکوں کو سخت نقصان پہنچایا ہے کیونکہ ان کی تنخواہوں کی قدر میں کمی اور زندگی گزارنے کے اخراجات میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ بجلی اور قدرتی گیس کے نرخوں میں زبردست اضافے نے صارفین اور کاروباری اداروں کی مشکلات کو مزید بڑھادیا ہے ۔

ملک میں جنوری میں مہنگائی کی شرح 48.7 فیصد تھی  جو پہلے ہی دو دہائیوں میں سب سے زیادہ تھی۔ فروری کے وسط میں، اردگان نے شرح سود میں کمی کرکے افراط زر کو سنگل ہندسوں تک کم کرنے کے  عزم  کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے  ترکی کی کرنسی کی زبوں حالی کا ذمے دار غیر ملکی مالیاتی آلات  پرعائد کیا تھا۔

اردگان کی حکومت نے”مستقل لیراائزیشن“ اور ”ریسکیو پلان “دینے کے بجائےلیرا میں بچت کرنےو الوں کو ضمانت دی ہے کہ اگر لیرا کی قدر شرح سود سے زیادہ گرجاتی ہے تو مرکزی بینک ان کے نقصان کو پورا کرے گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ مہنگا ہے اور اپنے اندر شرح سود کا پوشیدہ اضافہ لیے ہوئے ہے جبکہ اس کے پائیدار ہونے کا امکان بھی  نہیں ہے۔لندن میں قائم کیپٹل اکنامکس نے جمعرات کو ایک نوٹ میں لکھاکہ مہنگائی اس سال کے آخری مہینوں تک اس بلند ترین سطح کے قریب رہے گی، لیکن اہم بات یہ ہے کہ مرکزی بینک اورصدر اردگان کو شرح سود میں اضافے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔

متعلقہ تحاریر