وزیراعلیٰ پنجاب ولد وزیر اعظم ،ملک میں موروثی سیاست کا بول بالا

یورپ ، امریکااور دیگر ریاستیں بھی یک خاندانی نظام اپنائیں بہت ترقی کریں گی،کامران خان:پاکستانی قوم سیاست پر چند خاندانوں کی ڈکٹیٹرشپ کی حقیقت کو تسلیم کر چکی،انصار عباسی:حمزہ شہبازکی گلوکاری بھی ان کے وزیراعلیٰ بننے کی وجہ بنی،روزنامہ جنگ کی خبر میں دعویٰ

سیاسی عہدوں کی ماں  باپ  کے بعد بچوں  اور بچوں  کے بعد ان کے بچوں میں  منتقلی کو خاندانی یا موروثی سیاست کہا  جاتاہے۔سیاست میں چند خاندانوں کی اجارہ داری دنیا کے ہر ملک میں پائی جاتی ہے  لیکن اس  کی شرح انتہائی کم ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں موروثی سیاست کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

گزشتہ ہفتے پاکستان اور ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت کی تبدیلی کے بعد مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف  کے وزیراعظم اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہبازشریف  کے وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کے بعد ملک میں موروثی سیاست  کے حوالے سے نئی بحث چھڑگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے ہوئی،عمران خان

چھ دن کام کرنے کا فیصلہ معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا، نیوز 360 کا سروے

مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے بھائی شہبازشریف ملک کے وزیراعظم  اور ان کے فرزند حمزہ شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے ہیں ۔ یوں ملک میں جمہوریت کا بول بالا ہوگیا ہے اور ایک مرتبہ پھر ثابت ہوگیا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے  اور کیوں نہ ہو جن باپ بیٹوں نے  ساڑھے 3 سال تک اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے کیس میں  جیل کاٹیں اور پیشیاں بھگتیں انہیں پاکستان سے مفرور سابق وزیراعظم نوازشریف کے فیصلے پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بنادیا گیا جو پاکستا ن میں موروثی سیاست کی بدترین مثال ہے۔اس انوکھی مثال کو کوئی عنوان  دیا جائے تو شاید یہی ہوسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب ولد وزیراعظم پاکستان۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق  لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمینٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز کے محققین نے نے پاکستان کی موروثی سیاست کا موازنہ چند دوسرے ممالک سے کیا تھا۔ ان کے مطابق، امریکی کانگریس میں 1996 میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 6 فیصد تھا، بھارت کی لوک سبھا میں 2010 تک 28 فیصد، جبکہ پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد تھا جو کسی بھی جمہوری معاشرے کیلئے موروثی سیاست کی یہ شرح ناقابل قبول ہے۔

سینئر صحافی کامران خان نے اس حوالے سے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ یورپ امریکا اور دنیا کی دوسری علیشان جمہوریتیں بھی یک خاندانی خوبصورت جمہوری نظام اپنائیں بہت ترقی کریں گی۔ کسی بھی بڑے عہدے کے لئے گھر سے باہر جھانکنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ عرب ممالک اس نظام کو بادشاہت پکارتے ہیں  ۔بھارت بدقسمت تھا یک خاندانی جمہوریت فارغ کردی۔

سینئر صحافی انصار عباسی نے  آج روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے  مضمون کیلیے  اسی موضوع کا انتخاب کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ  اپ وزیر اعظم تو بیٹا وزیر اعلیٰ پنجاب۔ شہباز شریف بھی خوش، حمزہ شہباز بھی خوش اور مسلم لیگ ن کے تمام رہنما بھی خوش۔ فیصلہ میاں نواز شریف نے کیا اور ساری جماعت نے سر تسلیم خم کر دیا۔

اگرچہ یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر ہوا لیکن یہ پاکستانی سیاست پر چند خاندانوں کی ڈکٹیٹرشپ کی وہ حقیقت ہے جسے بحیثیت قوم ہم تسلیم کر چکے ہیں اور اسی لیے اسے بُرا نہیں جانتے۔

ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف)ہو یا ق لیگ ، عوامی نیشنل پارٹی یامتعدد دوسری سیاسی جماعتیں، ان کی پارٹی قیادت ہر حال میں ان سیاسی جماعتوں پر مسلط خاندانوں تک ہی محدود رہتی ہے۔یعنی طے ہے ن لیگ ہے تو قیادت شریف خاندان میں سے ہی ہو گی۔

 پیپلز پارٹی ہے تو بھٹو زرداری خاندان ہی رہنما بننے کے قابل ہیں ، جے یو آئی (ف)، ق لیگ اور اے این پی کی اعلیٰ قیادت بھی مولانا فضل الرحمٰن خاندان، گجرات کے چوہدری اور ولی خان خاندان تک ہی محدود ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کا بھتیجا اور موجودہ وزیراعظم شہبازشریف کا بیٹا ہونا ہی حمزشہباز کی قابلیت نہیں ہے بلکہ حمزہ شہباز کے پکے سُروں نے  بھی انہیں وزیراعلیٰ پنجاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی پرویز بشیر کی خبر کے مطابق  نواز شریف حمزہ کو اپنا اور شہباز شریف کا متبادل سمجھتے تھے،ایم این اے رہ چکے، گانا بھی گالیتے ہیں۔

بی بی سی کے مطابق گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے محقیقین کے مطابق، موروثی سیاست کے بارے میں ایک نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کیونکہ تاریخی لحاظ سے بڑے سیاسی خاندان ریاستی وسائل، اپنی خاندانی دولت، حالات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت اور مخالفین یا دوسروں پر تشدد کرنے کی صلاحیت پر اجارہ داری رکھتے ہیں اس لئے انہی خاندانوں کی اگلی نسل کے لیے سیاست میں اپنی حیثیت بنانا یا منوانا آسان ہوتا ہے۔

پھر ایک بات اور بھی کہی جاتی ہے کہ موروثی سیاست ان معاشروں میں زیادہ مضبوط ہوتی ہے جن میں جمہوری روایات پھلی پھولی نہیں ہوتی ہیں اور غیر جمہوری قوتیں گاہے بگاہے جمہوری نظام میں مداخلت کرتی رہتی ہیں ، اس کی مثال بھارتی اور پاکستان پنجاب ہے جہاں کا کلچر زبان اور رسوم  ورواج  تقریباً ایک ہے مگر چونکہ بھارت میں جمہوری عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے تو اس وجہ سے بھارتی پنجاب میں موروثی یا خاندانی سیاست کا حصہ 28 فیصد ہے  جبکہ  پاکستانی پنجاب میں یہ  53 فیصد ہے۔ تاہم اب ایک رجحان دیکھا جا رہا ہے کہ موروثی سیاست دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں کمزور ہو رہی ہے۔

ناظرین امریکی صحافی روزا بروکس اپنی کتاب A Dynasty is not Democracy میں لکھتی ہیں  ہیں کہ موروثی سیاست یا قیادت کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک غیر جانبدار عدالتی نظام حکومتوں کی کارکردگی کی نگرانی کرے جبکہ ایک طاقتور الیکشن کمیشن انتخابی نظام کی سختی سے نگرانی کرے۔ اس کے علاوہ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ قومی دولت کی بہتر تقسیم اور صنعتی ترقی بھی موروثی سیاست کو کمزور کر سکتی ہے۔

متعلقہ تحاریر