لاپتہ بلوچ طلباء کا معاملہ،اسلام آباد ہائی کورٹ نے کمیشن تشکیل دے دیا
عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ ہیومن رائٹس کی وزارت کو بند ہوجانا چاہیے، ملک میں ہیومن رائٹس کی سنگین صورتحال ہے، کیا وفاقی کابینہ کو نہیں معلوم تھا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس احتجاج پر تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ بلوچ طلباء کے معاملے پر امیر ملک مینگل اور ہیومن رائٹس کے چیئرپرسن اور افراسیاب خٹک پر مشتمل کمیشن تشکیل دے دیا۔
قائداعظم یونیورسٹی کے طالب علموں کو ہراساں کرنے کا معاملہ کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔
وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔ ایمان مزاری ایڈووکیٹ لاپتہ بلوچ طلباء کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نےبلوچ اسٹوڈنٹس کے وفد سے ملاقات کی اور صدر پاکستان نے احکامات جاری کئے ہیں، ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے بلوچ اسٹوڈنٹس کے وفد کی ملاقات آدھا گھنٹے تک جاری رہی۔
یہ بھی پڑھیے
وزیر خارجہ بلاول بھٹو کو سفارتی محاذ پر بےشمار چیلنجز کا سامنا
مریم اورنگزیب کی وزارت اطلاعات کی رپورٹ کارڈ خراب
لاپتہ بلوچ طلبہ کی وکیل ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ نمل یونیورسٹی کے طلبا لاپتہ ہو گئے ہیں، ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے بتایا کہ کراچی سے ایم بی بی ایس کرنے والا بلوچ طالب علم لاپتہ ہو گیا ہے۔
بیبرگ امدا نمل یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹس تھا جو پنجاب یونیورسٹی سے لاپتہ ہو گیا ہے، پورے ملک میں جو صورتحال ہے وفاق اس کا ذمہ دار ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے۔عدالت عظمیٰ نے استفسار کیا کہ آئین کا ذمہ دار کون ہے۔جس پر ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہی آئین کے ذمہ دار ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اصل مسائل ہیں جن پر ہر سیاست دان ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ لا اینڈ آرڈر کے مسائل ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے کچھ کیا اور نہ یہ حکومت کچھ کر رہی ہے۔جب کوئی حکومت میں نہیں ہوتا تو دعوے کچھ اور ہوتے ہیں اور حکومت میں آتے ہیں وہ دعوے اور باتیں بھول جاتے ہیں،کیا یہ رپورٹ میں لکھ دیں کہ یہ کمزور ریاست ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ نہیں لکھ سکتے کہ ریاست کمزور ہے۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ ہیومن رائٹس کی وزارت کو بند ہوجانا چاہیے، ملک میں ہیومن رائٹس کی سنگین صورتحال ہے، کیا وفاقی کابینہ کو نہیں معلوم تھا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس احتجاج پر تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کہ ہہ حقیقی ایشوز ہیں لیکن گزشتہ حکومت نے بھی ان کو نظر انداز کیا ، آئین کے مطابق کون اس سب کا زمہ دار ہے ؟ ۔
وکیل نے جواب دیاکہ چیف ایگزیکٹیو اور متعلقہ ادارے اس کے ذمہ دار ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ مت کہا کریں کہ یہ ریاست کمزور ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ وزارت انسانی حقوق کس لے رکھی ہوئی ہے نہ گزشتہ حکومت، نہ اس حکومت نے کچھ کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو نہ کہا کریں کہ لا اینڈ آرڈر کی صورت حال ہے اس سے بچے کیوں متاثر ہوں،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی حکومت میں نہیں ہوتا اس کی باتیں کچھ اور ہوتی ہیں حکومت میں آکر سب بول جاتے ہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئی حکومت آئی ہے مجھے ہدایات لینے دیں، اٹارنی جنرل بھی نہیں ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ عدالت کام بند کر دیں۔
چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر انداز کر سکتے ہیں۔یہ وفاقی حکومت کا کام ہے اور وزارت انسانی حقوق کا کام ہے۔
یہ وفاقی دارالحکومت ہے فروری سے ان کی پٹیشنز زیر التوا ہے ، یہ بچے ہمارا مستقل ہیں ،کیا عدالتیں ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کر لیں ؟ بالکل ایسا نہیں کریں گے ، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کابینہ کو معلوم نہیں ہوتا ملک میں کیا ہورہا ہے، کیا جو اس وقت کابینہ میں ہیں کل ان کے پاس جا نہیں رہے تھے؟ کیا ان کو نہیں پتہ ؟۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ جمہوری سوسائٹی میں یہ سیاسی لیڈرشپ کا کام ہے کہ وہ اس کا حل نکالے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبا کو ہراساں کرنے کی شکایات دور کرنے کا حکم دے دیا اور سیکریٹری داخلہ کو حکم دیا کہ وہ میکنرم بنائیں تاکہ بلوچ طلبہ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کو روکا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبا کی نسلی پروفائلنگ اور گمشدگیوں کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کمیشن تشکیل کے لیے نام مانگ لئے ۔درخواست گزار نے چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان حنا جیلانی ، افرا سیاب خٹک کے نام پیش کر دئیے ۔درخواست گزار وکیل نے سمیع الدین بلوچ اور ڈاکٹر عبد الحمید نیر کے نام بھی کمیشن کے لیے پیش کر دئیے۔
عدالت عظمیٰ نے ہدایت کی۔ہہ سیکرٹری داخلہ بلوچ طلبا کے آبائی علاقوں کا دورہ کرکے سیکیورٹی سے متعلق خدشات کو دور کریں، عدالت نے لاپتہ بلوچ طلباء کے معاملے پر امیر ملک مینگل اور ہیومن رائٹس کے چیئرپرسن اور افراسیاب خٹک پر مشتمل کمیشن تشکیل دے دیا۔
مقدمہ کی سماعت 13 مئی تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔