سود کے خلاف فیصلے پر اپیل، علماکرام کا متعلقہ بینکس کے بائیکاٹ کا اعلان

علماکرام نے کہا کہ حکومت اور مالیاتی ادارے سود کے خلاف اپیل میں جانے کے بجائے روڈ میپ تیار کریں

اسٹیٹ بینک پاکستان اور 4 کمرشل بینکس نے وفاقی شرعی عدالت کے سود  کے خلاف  دیئے گئے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ۔

اسٹیٹ بینک پاکستان اور کمرشل بینکس  کی جانب سے دائر درخواست   میں  وزارت خزانہ ، قانون اور چیئرمین بینکنگ کونسل  سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے ۔

یہ بھی پڑھیے

وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلے میں اسٹیٹ بینک نے سپریم کورٹ سے رہنمائی مانگ لی

دوسری جانب  علماء کرام نے اسٹیٹ بینک اوردیگر4 کمرشل بینکس  کی جانب سے سپریم کورٹ میں وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خلاف  فیصلے پر اپیل کو اللہ  و رسولﷺ سے جنگ قرار دیا۔

وفاقی شرعی عدالت کے سابق  جج اور معروف عالم دین اور مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ایک بارپھراسٹیٹ بینک اور چار بینکوں نے سودی نظام کو جاری رکھنے اورتین  اعلی ٰعدالتوں کے فیصلوں کو کھٹائی میں ڈالنے کے لئے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے ۔

مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ  شرعی کورٹ نے سودی نظام کو ختم کرنے کے لئے حکومت کو پانچ سال کی طویل مہلت دی گئی تھی ۔اب غیرت مند مسلمان سودی بینکوں کابائیکاٹ کریں۔سود کا لین دین اللہ اور اسکے رسول ﷺ کیساتھ اعلان جنگ ہے۔

 

مولانا طارق جمیل  کا کہنا تھا کہ ہم اللہ کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے اس ملک میں کبھی بھی خوشحالی نہیں لا سکتے۔  ہمیں اپنے ملک کو بچانے کیلئے سودی لین دین سے ہر طرح سے بائیکاٹ کرنا ہوگا۔

 

صحافی انصارعباسی  نے مائیکرو بلاگنگ سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ مفتی منیب الرحمن صاحب نے بھی اُن بینکس کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے سود کے خلاف شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔

 

انصارعباسی  نے سابق چیئر مین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان کی ایک تحریر شیئر کی جس میں انہوں نے کہا کہ حکومت اورمالیاتی ادارے سود کے خلاف اپیل میں جانے کے بجائے  روڈ میپ تیار کریں۔

واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک اور دیگر 4 کمرشل بینکس کی جانب سے وفاقی شرعی کورٹ کے فیصلے  کے خلاف  دائر  درخواست کے کے متن میں کہا گیا وفاقی شرعی عدالت نے سپریم کورٹ ریمانڈ آرڈر کو سامنے نہیں رکھا اور رولز میں ترمیم کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ شرعی عدالت کے فیصلے کیخلاف اپیل کو منظور کیا جائے اور فیصلے میں اٹھائے گئے نکات کی حد تک ترمیم کی جائے۔

متعلقہ تحاریر