پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ کا الزام ثابت، الیکشن کمیشن

پاکستان تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کا کیس بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں دائر کیا۔

الیکشن کمشن نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ آٹھ برس بعد سنادیا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف پر غیر ملکی فنڈز لینے کے الزامات ثابت ہوگیا ہے۔پی ٹی آئی نے امریکا، کینیڈا اور ووٹن کرکٹ سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔پی ٹی آئی کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس بھی جاری کردیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کیوں نہ فنڈز ضبط کر لیے جائیں۔وفاقی دارالحکومت میں آج فیصلے کے موقع پر سکیورٹی کے بھی سخت انتظامات کئے گئے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں نثار احمد اور شاہ محمد جتوئی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ سنایا،الیکشن کمیشن نے 21جون کو فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈنگ ​​ملی ،یہ الزام ثابت ہوگیا۔

یہ بھی  پڑھیے

کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سمیت 6 افسران ہیلی کاپٹر سمیت بلوچستان میں لاپتہ

پارٹی نے عارف نقوی اور 34 غیر ملکی شہریوں سے فنڈز لیے جبکہ 8 اکاؤنٹس کی ملکیت ظاہر کی اور 13 اکاؤنٹس کو پوشیدہ رکھے گئے۔فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے سامنے غلط ڈکلیئریشن جمع کرایا۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اکاؤنٹس چھپائے، بینک اکاونٹس چھپانا آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا جس میں کہا گیا کہ بتایا جائے کہ پارٹی کو ملنے فنڈز کیوں نہ ضبط کرلئے جائیں۔

فیصلے کے مطابق تحریک انصاف نے 8 اکاؤنٹس ظاہر کیے جبکہ 13 اکاؤنٹس پوشیدہ رکھے، یہ 13 نامعلوم اکاونٹس سامنے آئے ہیں جن کا تحریک انصاف ریکارڈ نہ دے سکی، پی ٹی آئی نے جن اکاؤنٹس سے لاتعلقی ظاہر کی وہ اس کی سینئر قیادت نے کھلوائے تھے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے پاس سال 2008 سے 2013 تک غلط ڈیکلریشن جمع کروائے جبکہ ان کے پاس فنڈنگ درست ہونے کے سرٹیفکیٹ نہیں تھے۔

فیصلے کی کاپی وفاقی حکومت کو بھی بھجوانے کی ہدایت کردی گئی۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنائے جانے سے قبل ریڈ زون کی سیکیورٹی سخت کرتے ہوئے غیر متعلقہ افراد کے ریڈ زون میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی جبکہ الیکشن کمیشن کے باہر بڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کئے گئے۔الیکشن کمیشن کے علاوہ نیپرا بلڈنگ، نادرا چوک اور سرینہ چوک کو خاردار تاروں سے بند کیا گیا ہے۔ایف نائن پارک، فیض آباد، بری امام ٹی کراس اور ایکسپریس چوک، میریٹ ہوٹل اور زیرو پوائنٹ پُل کو بھی خار دار تاروں سے بند کیا گیا ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فائر بریگیڈ اور ایمبولینس سروس کو بھی موقع پر موجود رہنے کا کہا گیا۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کسی رکن کو اس فیصلے سے اختلاف نہیں ہے ، فیصلہ متفقہ ہے۔

پاکستان تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کافیصلہ الیکشن کمیشن کمیشن کے تین رکنی بینچ نے کیا ، جس کی سربراہی چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی۔

PTI Prohibited Funding Case

PTI Prohibited Funding Case

الیکشن کمیشن کے فیصلے کا مکمل متن 

https://drive.google.com/file/d/1MEFEyjMSl4VB96Vq5qatgs88d-PNREjR/view

فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے سامنے 8 اکاؤنٹس ظاہر کیے جبکہ 13 اکاؤنٹس کو خفیہ رکھا گیا۔

فیصلے  میں کہا گیا ہے پی ٹی آئی کے سربراہ نے غلط تفصیلات جمع کرائیں۔ پی ٹی آئی نے عارف نقوی سے فنڈنگ لی۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈز حاصل کیے ہیں۔

فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی غیرملکی فنڈ ریزنگ میں 34 غیرملکیوں سے فنڈز حاصل کیے۔

پاکستان تحریک انصاف نے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی کی ، پی ٹی آئی نے 8 اکاؤنٹس ڈکلیئر ، پی ٹی آئی نے 34 غیرملکی کمپنیوں سےفنڈنگ لی۔ الیکشن کمیشن مطمئن ہے کہ غیرملکی کمپنیوں سے پی ٹی آئی نے فنڈنگ حاصل کی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی کو امریکی شہری سے بھی فنڈنگ حاصل ہوئی ۔ پی ٹی آئی کو 351 غیرملکی کمپنیوں سے فنڈز حاصل ہوئے ۔

گزشتہ سے پوستہ 

پاکستان تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کا کیس بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں دائر کیا۔

درخواست گزار اکبر ایس بابر نے بیرون ملک سے پارٹی فنڈنگ میں بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی۔

تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات کے لیے اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔

اکبر ایس بابر نے 14 نومبر 2014 میں کیس الیکشن کمیشن میں فائل کیا۔

پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔

اسکروٹنی کمیٹی نے 4 جنوری 2022 کو اپنی حتمی رپورٹ کو الیکشن کمیشن میں جمع کرائی۔

اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی بینک اسٹیٹمنٹ سے متعلق اسٹیٹ بینک سےحاصل 8 والیمز کو خفیہ رکھا۔

اسکروٹنی کمیٹی کے پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کے حوالےسے 95 اجلاس ہوئے ، کمیٹی کی رپورٹ 4 جنوری کو جاری کی گئی۔

الیکشن کمیشن کے حکم پر 8 والیمز اکبر ایس بابر کے حوالے کیے گئے۔

اکبر ایس بابر نے اپنی درخواست میں لکھا تھا کہ پی ٹی آئی کو غیرملکی فنڈنگ موصول ہوئی۔

الیکشن کمیشن میں کیس کی 75 سماعتیں ہوئی ، پی ٹی آئی نے کیس میں 30 بار التواء مانگا۔

کیس کے ناقابل سماعت ہونے سے متعلق 6 درخواستیں دائر کی گئیں ، پی ٹی آئی کی جانب سے 9 وکیل تبدیل کیے گئے۔

متعلقہ تحاریر