2020 نواز شریف اور 2022 عمران خان کی براہ راست تقاریر پر پابندی، پاکستان کامیاب جمہوریت کی مثال
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پمیرا) نے 6 صفحات پر مشتمل نوٹیفکیشن میں کہا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اپنی تقریروں کے ذریعے نفرت انگیزی پھیلانے کا موجب بن رہے رہے ہیں۔
اکتوبر 2020 میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی براہ راست تقاریر اور بیانات پر پابندی لگا دی تھی جبکہ آج 21 اگست 2022 یعنی آزادی کے مہینے میں سابق وزیراعظم عمران خان کی آواز کو قید کردیا گیا ، پیمرا نے ٹی وی چینلز پر عمران کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
پیمرا حکام کا کہنا ہے کہ "یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی تقاریر اور بیانات میں ریاستی اداروں پر مسلسل بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں اور ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف اپنے اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے متعصب اور نفرت انگیز تقریریں پھیلا رہے ہیں۔”
یہ بھی پڑھیے
شہباز گِل پر تشدد، بابر اعوان کا غیرجانبدار میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا مطالبہ
عمران خان نے راولپنڈی جلسے میں آئندہ کا لائحہ عمل دینے کا اعلان کردیا
پیمرا نے اپنی پریس ریلیز میں کہا کہ "عمران خان کی تقاریر اور بیانات سے امن و امان کی خرابی پیدا ہونے اور معاشرے میں بدامنی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔”
پیمرا آرڈیننس 2002 کے سیکشن 27 اے اور ترمیمی ایکٹ 2007 کے تفویض اختیارات کے تحت چیئرمین پیمرا نے مذکورہ بالا پس منظر اور وجوہات کے پیش نظر تمام سیٹلائٹ ٹی وی چینلز پر عمران خان کی لائیو تقاریر کو فوری طور پر نشر کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔
عمران خان نے ہفتے کے روز اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں پی ٹی آئی کی احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انہیں نہیں چھوڑیں گے اور جسمانی ریمانڈ کے دوران پارٹی رہنما شہباز گل پر "تشدد” کرنے پر ان کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے۔ ڈیوٹی مجسٹریٹ زیبا چوہدری کو بھی دھمکی دیتے کہا تھا کہ تمہیں بھی نہیں چھوڑیں گے اور ان (زیبا) کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے۔
کسی بھی جمہوری معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی اس معاشرے کی جمہوری روایات کی عکاس ہوتی ہے، مگر جب دنیا پاکستان کی جمہوریت کی مثال دے گی تو کہے گی ایسی جمہوریت قائم کرنے سے تو بہتر تھا کہ ڈکٹیٹرشپ ہی اس ملک میں رہتی۔ دنیا ہماری جمہوری روایات کا مذاق اڑائے گی۔
پاکستانی آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت تمام پاکستانیوں اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے ، مگر پاکستانی معاشرے میں یہ آزادی بھی کچھ حدود کے دائرے میں رہ کر دی گئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے 2020 میں سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد میاں نواز شریف کی براہ راست تقاریر پر پابندی عائد کی تھی اور آج پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی براہ راست تقاریر اور بیانات پر بین لگا دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اگر ان کی قیادت کی زباں بندی کردی جائے گی تو بیرونی دنیا میں ہمارا کیا تاثر جائے گا ، کہ ہم کس قسم کی جمہوریت کے داعی ہیں۔