2018-19 میں پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کا عمل غیرشفاف تھا، اسٹیک ہولڈرز گروپ

پاکستان اسٹیل ملز کی تحقیقات ٹیکس دہندگان کے پیسوں پربلااحتساب مزے اڑانے والےخود ساختہ محب وطن ، جمہوریت پسند اور احتساب کے چیمپینز  کو بے نقاب کرنے کیلیے موزوں کیس ہے، اسٹیک ہولڈرز کا ادارےکے سربراہ ودیگر کے نام خط

پاکستان اسٹیل ملز (پی ایس ایم)اسٹیک ہولڈرز گروپ نے دعویٰ کیا کہ 19-2018 کے دوران نجکاری کا عمل غیر شفاف تھا جس سے سرکاری خزانے کو مزید مالی نقصان پہنچا۔

پی ایس ایم اسٹیک ہولڈرز گروپ نے پاکستان اسٹیل ملز کے سی ای او ڈاکٹر سیف الدین جونیجو،سیکریٹری وفاقی  وزارت صنعت و پیداوار کے امداد اللہ بوسال اور سیکریٹری نجکاری ڈویژن  ارم اے خان کوایک  خط  ارسال کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

منافع بخش ادارے ‘پاکستان اسٹیل ملز’ کو کیسے تباہ کیا گیا؟

ایئر لفٹ نے 11ماہ میں 8.5 کروڑ ڈالر کیسے اڑائے؟کمپنی کی تباہی کی اندرونی داستان

خط میں کہا گیا   ہے 19-2018کے دوران پی ایس ایم کی نجکاری کا عمل غیر شفاف تھا اور اس سے مزید مالیاتی تباہی ہوئی۔خط میں  لکھا گیا ہے کہ پی ایس ایم سی اسٹیک ہولڈرز گروپ وزارت صنعت و پیداوار، نجکاری ڈویژن  اور چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) پاکستان اسٹیل ملزکے نئے سیکریٹریز کو مطلع کرنا اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے کہ ماتحت  عملہ    احتساب کے خوف سے بالاتر ہوکر انہیں اسٹیل ملز کے مسلسل بگڑتے معاملات   کے بارے   میں گمراہ کررہا ہے۔

  نظرثانی کی اپیل”19-2018 میں شروع کیا گیا پی ایس ایم کی نجکاری کا عمل غیر شفاف ہے اور مزید مالیاتی تباہی کا باعث بنتا ہے“۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں مزید ملازمین کی چھانٹی  کی رپورٹ (اینیکس-اے) جمع کرانے سے پہلے2006 سے 2022 تک کے قانونی مضمرات کو مدنظر رکھا جائے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اسٹیل ملز کو 31 اکتوبر 2018 کو کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے ذریعے  فعال نجکاری کی فہرست سے خارج کردیا گیا تھا اور وزارت صنعت و پیداوار کو آپریشنلائزیشن پلان جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی۔

وزارت صنعت و پیداوار  نے نجی شعبے کو فائدہ پہنچانے کے لیے نجکاری کے ذریعے آپریشنلائزیشن پلان تجویز کیا جو مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی منظوری ، زمین کے مسائل سے متعلق حکومت سندھ   کے این او سی اور12فیصد حصص کے مالک ملازمین  کو اعتماد میں لیے بغیر غیرشفاف ہے۔

خط کے مطابق  سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے دستاویزات اور 2009 سے 2021تک کی بیلنس آڈٹ  شی ٹ میں اسٹیل ملز کے ملازمین کو 12 فیصد حصص کا مالک قرار دیا گیا ہے لیکن حصص کو امپلائز ٹرسٹ فنڈ میں منتقل نہیں کیا گیا جس کی وجوہات  منیجمنٹ، بورڈ آف ڈائریکٹرز یا وزارت صنعت و پیداوار کوہی معلوم ہوسکتی ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اسٹیل ملز کے ملازمین کو قانونی واجبات کی ادائیگیاں ریٹائرڈ ملازمین سے   کتابی مالیت کے مطابق شیئر واپس خرید کر کی جانی  تھیں۔

 خط میں کہا گیا ہے  کہ نفع بخش  پاکستان اسٹیل ملز کو 2005سے 2002 کے دوران جان بوجھ کر تباہ کیا گیا  جس کے نتیجے میں اسٹیل ملز کےخسارے، اسٹیل کے درآمدی بل میں اضافے سے ایف بی آر کومحصولات کی مد میں ہونے والی کمی اور لوہے اور اسٹیل کے اضافی درآمد ی بلوں    کے باعث ملک کا ادائیگیوں کا توازن بگڑنے سے    ملکی معیشت اور قومی خزانے کو 12ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اس غلطی کے مرتکب افراد( فائدہ اٹھانے والے اور طاقت کے ایوانوں میں موجود اس ن کے سہولت کار) اب بھی احتساب سے مبرا ہیں۔اسٹیک ہولڈرز گروپ نے متعلقہ اداروں کو خطوط کی شکل میں کئی درخواستیں اور شکایات ارسال کیں کہ معاشی  نقصانات کی وجہ بنے والے عوامل   کا  تعین اور احتساب کرکےان سے وصولی کو ممکن بنایا جائے لیکن ان شکایات کا تاحال کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔

اسٹیک ہولڈرز گروپ نےدرخواست کی ہے کہ پاکستان اسٹیل ملزکو مزید معاشی تباہی سے بچانے کیلیے  19-2018 میں شروع کیے گئے غیر شفاف نجکاری کے عمل پر نظرثانی کی  جائے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ 30جون 2018 سے 30جون2021 تک پی ٹی آئی حکومت کے پہلے 3سالوں کے دوران پاکستان اسٹیل ملز کو 48ارب 84کروڑ 60لاکھ روپے کا آڈٹ شدہ مالی نقصان ہوا ( یعنی اوسطاً یومیہ 4کروڑ46لاکھ روپے کا نقصان ہوا)  اور قابل ادائیگی واجبات میں 94ارب 76کروڑ40لاکھ  روپے کا اضافہ ہوا(یعنی یومیہ 8کروڑ65لاکھ 40ہزار وپے  یومیہ واجبات کا اضافہ ہوا) جبکہ مالی سال22-2021 کے کھاتوں کا ابھی تک رپورٹنگ کے لیے آڈٹ نہیں کیا گیا۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ  30 جون 2021 تک پاکستان اسٹیل ملز  کے جمع  کرائے  آڈٹ شدہ مالیاتی نقصانات2کھرب 22ارب94 کروڑ 20لاکھ روپے تھے اور قابل ادائیگی قرض 3کھرب 5ارب 29کروڑ 60لاکھ روپے تھے   جبکہ  اگست 2022 تک گیس کے بقایا بل اور لیٹ پیمنٹ سرچارج  کی مد میں سوئی سدرن گیس کمپنی  کی قابل ادا رقم 82ارب 40کروڑ 90لاکھ روپے ہے  جو کہ اسٹیل ملز کے حسابات میں شامل نہیں کی گئی ہے۔

اسٹیٹ ہولڈرزنے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کی تحقیقات ٹیکس دہندگان کے پیسوں پربلااحتساب مزے اڑانے والےخود ساختہ محب وطن ، جمہوریت پسند اور احتساب کے چیمپینز  کو بے نقاب کرنے کیلیے موزوں کیس ہے  ۔

خط میں کہا گیا ہے پاکستان اسٹیل ملز کی  بحالی سے متعلق تمام زیر التوا مسائل، اس کے ملازمین (حاضر سروس/متاثرین) کے مسائل وفاقی حکومت، حکومت سندھ اور اسٹیک ہولڈرز کے نمائندوں کے درمیان سہ فریقی اجلاس کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں جس سے وقت اور پیسے کی بچت ہوگی۔

خط میں مزید کہا گیا ہے  کہ  2005 سے 2022 تک کےملکی معیشت اور قومی خزانے پر منفی اثرات کا سبب بننے والے واقعات   کو مدنظر رکھا جائے تو  غیر شفاف نجکاری کےبجائے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل نو اور پیشہ ورانہ انتظامیہ کے تقرر کے ذریعے پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی  آسان ہے ۔

متعلقہ تحاریر