امریکی سائفر کی گمشدگی: وفاقی کابینہ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی؟

انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق ایک سابق سفارت کار نے کہا کہ اگر پوری کابینہ نے سائفر پڑھا ہے تو یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو گمشدہ سائفر کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ وہ اپنے پاس سائفر نہیں رکھتے بلکہ ایسی چیزیں ان کے پرنسپل سیکرٹری کے دفتر میں رکھی جاتی ہیں

کیا کابینہ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے؟۔ سابق سفارت کارنے سائفر نمبر اور تاریخ جاری کرنے کے لیے وفاقی کابینہ کے اقدام پر سوال کھڑے کردیئے ہیں۔

 ملک میں حالیہ آڈیو لیکس کے بعد جاری امریکی سائفر سے متعلق شک و شبہات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک سابق سفارت کار نے وفاقی کابینہ کی جانب سے سائفر کے نمبر  بتانے کے اقدام پر سوال اٹھایا۔

یہ بھی پڑھیے

حکومت نے ایف آئی اے کو ’ڈپلومیٹک سائفر‘ تنازعہ کی تحقیقات کی ہدایت کردی

انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق  سابق سفارت کار نے کہا کہ اگر پوری کابینہ نے سائفر پڑھا ہے تو یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرنے والے ریٹائرڈ سفیر نے کہا کہ کابینہ نے بظاہر سمری کے ساتھ سائفر کی تفصیلات بتا کر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔

سابق سفارت کار نے کہا کہ تاریخ اور نمبر ظاہر کرنے اور یہ بتانے سے کہ یہ سمری کے ساتھ منسلک ہے، یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پوری کابینہ نے اسے پڑھ لیا ہے ۔

کیا سائفر کی کاپی بنائی جاسکتی ہے؟

ایک سائفر اس کی درجہ بندی کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے۔ سفارت کار کے مطابق گریڈ I اور گریڈ II کے ٹیلی گرام کی گردش مختلف ہے لیکن یہ موجد پر منحصر ہے کہ وہ مطلوبہ سامعین کی وضاحت کرے۔

 انہوں نے کہا کہ گریڈ I کے سائفر میں گریڈ II کے درجہ بندی کے مقابلے میں محدود گردش ہے۔سابق  سفارت کارنے وضاحت کی کہ دفتر خارجہ میں سائفرز کو ڈی کوڈ کیا گیا تھا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ سائفر کو کاپی کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا کیونکہ مشین صرف تقسیم کی فہرست – گریڈ I یا II کے مطابق سائفرز تیار کرے گی ۔

سابق ایلچی نے کہا کہ ملکی قانون ، آفیشل سیکرٹس ایکٹ  کے تحت سائفر کی کاپیاں بنانے کی اجازت نہیں دیتا ہے اس کے لیے دفتر خارجہ سے اجازت درکار ہوتی ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ دو قسم کے سائفرز ہوتے ہیں۔ ایک جسے صرف حسب ضرورت مشینوں کے ذریعے ڈی کوڈ کیا جا سکتا ہے اور دوسرا جسے بک سائفر کہا جاتا ہے، جس میں اہم راز ہوتے ہیں ۔

کیا وزیر اعظم کو گمشدگی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟

جمعہ کو وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں بتایا گیا کہ سائفر کی کاپی وزیر اعظم ہاؤس کے ریکارڈ سے غائب ہے۔

سابق سفیر نے کہا کہ سائفر کو نہ تو کسی کے دفتر سے باہر لے جایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کے گھر،کچھ معاملات میں سائفرز صرف ایک نامزد شخص ہی متعلقہ شخص کے پاس  لیکر جائےگا پڑھنے کے بعد اسے دفتر خارجہ میں واپس لے آئے گا۔

سابق سفیر نے کہا کہ سائفر کی  گمشدگی کا تصور مضحکہ خیز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا یہ سائفر وزیراعظم ہاؤس سے غائب ہوا ہے ۔

یہ بھی پڑھیے

سائفر کی تلاش میں بنی گالہ پر چھاپہ مارنا چاہیے، مریم نواز

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو گمشدہ سائفر کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ وہ اپنے پاس سائفر نہیں رکھتے بلکہ ایسی چیزیں ان کے پرنسپل سیکرٹری کے دفتر میں رکھی جاتی ہیں۔

سائفر سے آڈیو لیکس تک

ڈپلومیٹک کیبل کا تنازعہ ابتدا میں اس وقت سامنے آیا تھا جب عمران نے امریکی سفارت کار پر ایک میٹنگ میں پاکستانی سفارت کار کو مبینہ طور پر دھمکیاں دینے کا الزام لگایا تھا۔

یہ معاملہ سوشل میڈیا پر دو آڈیو ریکارڈنگز کے سامنے آنے کے بعد نئے سرے سے توجہ کا مرکز بنا، جس میں عمران، ان کے پرنسپل سیکرٹری اور کابینہ کے وزراء مبینہ طور پر اس بات پر بحث کر رہے تھے ۔

ایک طویل عرصے سے یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں آڈیو اور ویڈیو لیک سکینڈلز میں الجھتی رہی ہیں لیکن کبھی بھی ایسے الزامات اور تردید کی کوئی جامع انکوائری نہیں ہوئی۔

متعلقہ تحاریر