امریکی ڈالرز کی افغانستان اسمگلنگ بلاروک ٹوک جاری ہے، ای سی اے پی
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے کہا ہے نئے قانون کے تحت روزانہ کی بنیاد پر 15 ہزار افغانی 15 ملین ڈالر قانونی طور پر افغانستان لے جاتے ہیں۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای سی اے پی) نے پیر کے روز اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام سے لے کر اب تک ملک پاکستان سے ڈالرز کی افغانستان کو اسمگلنگ جاری ہے۔ جس کی واضح نشانی یہ ہے کہ ڈالرز کی کمی کا رونا رونے والی طالبان حکومت اپنے بڑے اخراج سے نمٹ رہی ہے۔
ان خیالات کا اظہار ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ECAP) کے چیئرمین ملک بوستان نے ایک نیوز کانفرنس کے دورا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت کئی ایک ساتھ کئی محاذوں پر مسائل سے نبردآزما ہے ، سب سے بڑا مسئلہ اس وقت ملک میں سیاسی بحران کا ہے ۔ جبکہ ڈالرز کی کمی کا مسئلہ بھی اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ملک میں مہنگائی کی شرح 27.3 کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
وسائل کے درست استعمال سے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا، ترجمان بلوچستان حکومت
ملک بوستان نے اس بات کی نشاندہی کی کہ جب کابل پر طالبان کی حکومت آئی تھی تو ڈالر 155 روپے کا تھا اور پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 22 ارب ڈالرز تھے۔ اب انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 225 روپے میں فروخت ہونے کے ساتھ ذخائر تقریباً آٹھ سالوں کی کم ترین سطح پر آ گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں امریکی ڈالرز کی اسمگلنگ نے پاکستان میں معاشی بحران پیدا کردیا ہے۔
ملک بوستان کا کہنا تھا روزانہ کی بنیاد پر 15 ہزار افراد افغانستان کا سفر کرتے ہیں ، وفاقی حکومت کو ہر شخص کو روزانہ 1 ہزار ڈالر لینے کی اجازت دی ہے ، جس کا مطلب ہے کہ روزانہ 15 ملین ڈالر قانونی طور پر افغانستان منتقل ہورہے ہیں۔
ملک بوستان نے اپنے خطاب میں اس بات کا دعویٰ کیا کہ کابل حکومت نے دو ماہ قبل پاکستانی روپے کو ڈالر یا دیگر کرنسیوں میں تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔ کابل میں کسی بھی شخص کو 0.5 ملین سے زائد پاکستانی رکھنے کی اجازت نہیں ہے ، اگر کوئی رکھے گا اس کے خلاف منی لانڈرنگ کے قانون کے تحت کارروائی ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ پچھلے 42 سالوں سے افغانی پاکستانی روپے میں کاروبار کررہے ہیں ، ان کے پاس سینکڑوں اربوں پاکستانی روپے ہیں۔ لیکن اب وہ ہر قیمت پر پاکستان سے ڈالر خرید رہے ہیں۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سربراہ ملک بوستان نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ کابل حکومت سے اس مسئلے پر بات کرے ، اور مسئلے کاحل نکالے۔
ان کا کہنا تھا کہ تجارتی بینک کریڈٹ کارڈز کے لیے ایکسچینج کمپنیوں سے ماہانہ کی بنیاد پر 120 ملین سے 130 ملین ڈالرز خرید رہے ہیں۔ یہ کارڈز ملک سے قانونی طور پر ڈالر باہر منتقل کر رہے ہیں۔ تاہم اب حکومت نے سالانہ فی کارڈ اخراجات کی حد کو کم کر کے 30,000 ڈالر کر دیا ہے، تاہم اس سے پہلے اس طرح کے لین دین پر کوئی حد نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایکسچینج کمپنیاں اس وقت دیگر غیر ملکی کرنسیوں کی برآمد کے ذریعے 3 بلین ڈالر درآمد کرتی ہیں جبکہ ترسیلات زر سالانہ 2 بلین ڈالر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ہمیں ترسیلات زر کے لیے 50 غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرنے کی اجازت دے تو ہم ہر سال 7 بلین ڈالر سے 8 بلین ڈالر تک لے سکتے ہیں جبکہ اس وقت ہمارے پاس صرف 3 بلین ڈالر ہیں۔