جہانگیر صدیقی اور علی جہانگیر صدیقی نیب ترامیم سے کس طرح مستفید ہوئے؟
نیب قوانین میں ترامیم سے ملک کی 90 فیصد بااثر کاروباری شخصیات کے قومی احتساب بیورو میں موجود مقدمات غیر فعال ہوکر رہ گئے ہیں، جہانگیر صدیقی گروپ کیخلاف تحقیقات کرنے والے افسران کے تبادلے کردیے گئے
طاقت، پیسے اور اثر و رسوخ کی وجہ سے وائٹ کالر کرائم میں ملوث جہانگیر صدیقی، علی جہانگیر صدیقی اور ان کی دست راست انتہائی بااثر کاروباری شخصیت سزاؤں سے محفوظ ہیں اور ایسے میں نیب قوانین میں ترامیم میں ان پر گرفت بالکل ختم کردی ہے۔
نیوز 360 کو ملنے والی دستاویز کے مطابق نیب قوانین میں ترامیم سے ملک کی 90 فیصد بااثر کاروباری شخصیات کے قومی احتساب بیورو میں موجود مقدمات غیر فعال ہوکر رہ گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
پٹرولیم مصنوعات کی قلت کا خدشہ، او سی اے سی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
آئی ایم ایف نے اگلی قسط کے لیے سابقہ شرائط کو پورا کرنے کا مطالبہ کردیا
جون 2022 میں نیب کی ان ترامیم سے پہلے بھی یہ جہانگیر صدیقی، علی جہانگیر صدیقی اور ان کی دست راست جہانگیر صدیقی گروپ کی انتہائی بااثر کاروباری شخصیت اگست 2021 میں اتنا اثر و رسوخ رکھتی تھیں کہ ان کے خلاف فراڈ اور منی لانڈرنگ کی ایف آئی اے تحقیقات میں سے اثر و رسوخ استعمال کرکے ان کے نام اس تحقیقات سے نکال دیئے گئے تھے۔
ایف آئی اے نے جولائی 2021 میں جہانگیر صدیقی، علی جہانگیر صدیقی اور ان کے دست راست کے خلاف ایک انکوائری کا آغاز کیا تھاجس کے دوران 6 جولائی 2021 کو جے ایس بینک کو ایک خط لکھا گیا تھا۔ اس انکوائری کی دستاویز نیوز 360 کے پاس موجود ہیں۔ اس سلسلے میں موجود دستاویز کے مطابق ملک کے بڑی بینکوں کو بھی 12 کمپنیوں اور شخصیات سے متعلق خط لکھا گیا اور ان 12 کمپنیوں اور شخصیات کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کی گئیں تھی۔ ان 12 کمنپیوں میں دی سن ٹرسٹ،آکاموٹو ہولڈنگز،مونتا بیلو،ریالا فنانشنل کارپوریشن،دی انڈؤمنٹ فنڈ ٹرسٹ فار ہیریٹیج پریزرویشن، دی گرو لمیٹڈ، جہانگیر صدیقی اور علی صدیقی شامل ہیں۔
14 جولائی 2021 کو ایف آئی اے نے تمام بینکوں کو ایک بار پھر یاد دہانی کے لیے ایک اور خط لکھا اور مذکورہ بالا 12 کمپنیوں اور شخصیات کے اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کیں تھیں۔ اس کے لگ بھگ ایک ماہ کے بعد 13 اگست 2021 کو ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی نے جے ایس بینک اور اس کے دیگر متعلقین کے نام انکوائری سے نکال لیے۔
اس کے فوری بعد اس کی تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے دو افسران رمیش کمار کو گلگت اور بلال اسلم خان کو کوئٹہ ٹرانسفر کردیا گیا۔ ایف آئی اے کے ایک افسر کے مطابق جہانگیر صدیقی، علی جہانگیر صدیقی اور ان کے دست راست جہانگیر صدیقی گروپ کے دیگر انتہائی بااثر کاروباری شخصیت کے نام اس انکوائری سے اس وقت کی تحریک انصاف کی حکومت کے اثر و رسوخ پر نکالے گئے۔ جبکہ اس سلسلے میں ایف آئی اے کے پاس جہانگیر صدیقی، علی جہانگیر صدیقی اور ان کے دست راست جہانگیر صدیقی گروپ کے دیگر انتہائی بااثر کاروباری شخصیت کے خلاف بے تحاشہ ثبوت تھے۔
ایف آئی اے نے 16 دسمبر 2019 کو کانفیڈینشل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی ’’ سائفین‘‘ نے بھی ’’ کیمن آئی لینڈز‘‘ کی کمپنی میں جہانگیر صدیقی، علی جہانگیر صدیقی کی مشکوک ٹرانزیکشن کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا تھا۔ وزارت خزانہ کے ذیلی ادارے پاکستان فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ کو بھی ان مشکوک ٹرانزیکشن کی تفصیلات فراہم کی گئیں تھیں۔
کانفیڈینشل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی ’’ سائفین‘‘ کی تحقیقات کے مطابق ’’ دی سن ٹرسٹ‘‘ اور آکاموٹو ہولڈنگز لمیٹڈ 2011 کے ریکارڈ کے مطابق جہانگیر صدیقی اور ان کے صاحبزادے علی جہانگیر صدیقی اور ان کے خاندان کی 100 فیصد ملکیت ہے۔ ان کے اکاؤنٹس ڈوئچے بینک کیمن آئی لینڈز برانچ میں 2011 میں کھولے گئے۔
اس دوران کانفیڈینشل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی ’’ سائفین‘‘ کی تحقیقات میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ ان اکاؤنٹس میں پاکستان کے اس بڑے کاروباری خاندان کی بے ضابطگیاں بھی پائی گئیں اور مشکوک ٹرانزیکشن بھی تھیں اور ان کے لیے مشکوک سرگرمیوں کی رپورٹ بھی جاری ہوئی۔
وزارت خزانہ کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے سیکوریٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو 31 جنوری 2020 کو ایک خصوصی خط لکھا اور اس میں کانفیڈینشل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی ’’ سائفین‘‘ کی خفیہ تحقیقات کا حوالہ بھی دیا، ساتھ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کیمن آئی لینڈز کے فنانشل انٹیلی جنس یونٹ نے بھی ’’ دی سن ٹرسٹ اور آکاموٹو ہولڈنگز‘‘ کیمن آئی لینڈز کو جہانگیر صدیقی اور ان کے پوتوں کو اس ٹرسٹ کا بینیفشری ثابت کیا گیا ہے۔
اس کے کچھ عرصے کے بعد سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر طارق بختاور کو بھی ایس ای سی پی سے فارغ کردیا گیا اور اس سے پہلے ایف آئی اے کے دو حکام کا بھی تبادلہ کیا گیا تھا۔ یہ سب اس وقت کیا گیا جب کانفیڈینشل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی ’’ سائفین‘‘ کے پاس اس کاروبار خاندان کے خلاف مشکوک ٹرانزیکشن اور جہانگیر صدیقی اور ان کے بیٹے علی جہانگیر صدیقی کے سال 2017 سے اس ٹرسٹ کی باگ ڈور سنبھالے کے خاصے ثبوت تھے۔ یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ جہانگیر صدیقی کے تین پوتے بھی اس ٹرسٹ کے بینیفیشریز میں شامل ہیں۔
جولائی 2017 میں علی جہانگیر صدیقی کے سیاست میں قدم رکھنے کے لیے ان کا نام اس ٹرسٹ سے نکال دیا گیا اور ان کی جگہ جہانگیر صدیقی کے ایک سال اور دو سے ڈھائی سال کے تین پوتے اس کے بینیفشریز میں شامل کیے گئے۔
اگست 2017 میں علی جہانگیر صدیقی نے مسلم لیگ نون کی حکومت میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی مقرر ہوئے۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد جہانگیر صدیقی کو مارچ 2018 میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکا میں پاکستان کا سفیر مقرر کردیا ۔ جس شخصیت پر مشکوک ٹرانزیکشن کے ثبوت تھے انہیں سفیر بناکر پاکستان کی حساس معلومات تک رسائی دی گئی اور دفتر خارجہ اور افواج پاکستان کو بھی ان کسی حد تک ماتحت بنایا گیا۔
نا تجربہ کار اور نا اہل علی جہانگیر صدیقی کی ان انتہائی حساس عہدے سے نوازا گیا اور بعد میں تحریک انصاف کی حکومت میں بھی سازباز کرکے علی جہانگیر صدیقی ایمبیسڈر ایٹ لارج بنادیا گیا۔
اس طرح سفیر اور ایمبیسڈر ایٹ لارج بننے کی وجہ سے علی جہانگیر صدیقی کے اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ اور مسلم لیگ نون کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور تحریک انصاف کے وزیراعظم عمران خان سے بھی مراسم قائم ہوئے۔ اس طرح جہانگیر صدیقی اور ان کے صاحبزادے علی جہانگیر صدیقی کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔
کانفیڈینشل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی ’’ سائفین‘‘ کے مراسلے کے مطابق دسمبر 2011 میں آکاموٹو کمپنی کے اکاؤنٹ میں 12 لاکھ ڈالر گولڈمین سیک زیورخ بینک سے ریالا فنانشنل کارپوریشن کی جانب سے منتقل کیے گئے۔ یہ اس ٹرسٹ میں ہونے والی واحد ٹرانزیکشن تھی اور اس کا واحد اثاثہ تھی اور تقریباً یہ رقم اس اکاؤنٹ میں جمع رہی جو اس خاندان کی ایک فیملی فاؤنڈیشن تھی۔
اس مراسلے کے مطابق جہانگیر صدیقی نے ڈوئچے بینک اکاؤنٹ اور اس اکاؤنٹ میں گولڈمین سیک کی ٹرانزیکش کی معلومات دینے سے انکار کردیا اور اس طرح ڈوئچے بینک نے اکاؤنٹس کی مانیٹرنگ کا آغاز کیا۔ علی جہانگیر صدیقی اس وقت اس ٹرسٹ سے وابستہ بھی تھے۔ اس کیس کی فائل میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ان کلائنٹ نے بتایا کہ اس اکاؤنٹ میں مزید کوئی ٹرانزیکشن نہیں کی گئی جبکہ ایک گمان ہے کہ اس کی تحقیقات کی جاتیں تو اس کی ٹرنزیکشن کی مجموعی رقم 5 ملین سے 10 ملین ڈالر کے درمیان ہوسکتی تھی۔
وزارت خزانہ فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ نے سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو ایک خط لکھا اور اس میں علی جہانگیر صدیقی کی 10 مشکوک کمپنیوں کی معلومات کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں انڈوومنٹ فنڈ ٹرسٹ برائے ہیریٹیج پریزرویشن اور پاکستان انٹرنیشنل کنٹنرز اور دیگر کمپنیوں کا ذکر بھی کیا گیا۔
فنانشل مانیٹرنگ یونٹ ایف ایم یو نے اس سلسلے میں تجویز کیا کہ جہانگیر صدیقی اور علی جہانگیر صدیقی کے اثاثہ جات کی مزید تحقیقات کی جائیں اور نیب جو پہلے کی ان کے اسٹاک اور دیگر کرپشن کی تحقیقات کر رہی ہے اب مزید کانفیڈینشل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی ’’ سائفین‘‘ کے مراسلے کی روشنی میں تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کرے۔
کیمن آئی لینڈز کی اتھارٹیز کا کہنا ہے کہ سال 2013 سے 2018 تک ان کے کلائنٹ جہانگیر صدیقی اور ان کے کاروبار کی پاکستان میں کئی تحقیقات کی گئیں اور اس سلسلے میں علی جہانگیر صدیقی اور ان کے کاروبار میں بھی بےضابطگیوں اور منی لانڈرنگ، ان سائیڈ ٹریڈنگ کے ثبوت ملے۔ بٹرفیلڈ بینک کی مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹ کے مطابق سال 2007 سے اس سلسلے میں مشکوک سرگرمیاں پائی گئیں۔
کانفیڈینشل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی ’’ سائفین‘‘ کے مراسلے کے مطابق جہانگیر صدیقی اور ان کے صاحبزادے علی جہانگیر صدیقی ان کے زیر انتظام چلنے والے ٹرسٹ بلواسطہ اور بلاواسطہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں اور اس کے سلسلے میں جرائم کا حصہ ہیں۔
کانفیڈینشل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی ’’ سائفین‘‘ نے جہانگیر صدیقی اور ان کے صاحبزادے علی جہانگیر صدیقی کے خاندانی کاروبار کی تحقیقات کی۔ کیمن آئی لینڈز اتھارٹی کے مطابق ان کے پاس اس سلسلے میں اب مزید شواہد نہیں ہیں تاہم ان کی دستاویز میں واضح ہے کہ یہ خاندان جزوی طور پر ملوث ہے۔
کانفیڈینشل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی ’’ سائفین‘‘ کی تحقیقات اور اس کے مراسلے کے مطابق کیسے علی جہانگیر صدیقی کو نیب نے طلب کیا اور سال 2008 میں 23.758 ملین یورو کی رقم سے اطالوی کمپنی مونٹے بیلا کی خریداری میں ملوث ہونے کی تحقیقات کیں۔
علی جہانگیر صدیقی آیزگارڈ نائن کے ڈائریکٹر تھے اور ایک فارن کمپنی فیری ٹال کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا کرتے تھے اور نیب کی تحقیقات کے مطابق فیری ٹال کمپنی کو اس ڈیل کے لیے استعمال کیا گیا اور ان ٹرانزیکشنز کے لیے پھر اسے نقصان میں ظاہر کیا گیا اور اس کے شیئرز ہولڈرز کو گھاٹے میں ظاہر کیا گیا ۔
اس تحقیقات میں ایگری ٹیک کیس کو بھی نمایاں کیا گیا ہے ۔ اس ایگری ٹیک کیس میں اس کمپنی کو اس کے سابقہ مالکان اور حکومتی اداروں کو مارکیٹ ریٹ سے زیادہ پر فروخت کیا گیا، اس کے نادہندہ قرضے سیٹل کیے گئے اور لگ بھگ 40 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی سال 2016 کی رپورٹ کے مطابق آیزگارڈ نائن کے شیئرز کو بھی مصنوعی طور پر 24 روپے فی شیئرز سے بڑھا کر 70 روپے فی شیئر تک پہنچایا گیا اور نامعلوم شخصیات کو فائدہ پہنچایا گیا۔ جہانگیر صدیقی اور ان کے خاندان کے سیاسی اثرورسوخ کی بدولت ان کیسز کی تحقیقات منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکیں۔ نیب اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان بھی ایف آئی اے کی طرح ان کے خلاف تحقیقات مکمل نہ کرسکیں۔
کانفیڈینشل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی ’’ سائفین‘‘ کے مراسلے کے مطابق آکاموٹو ہولڈنگ کی بینک کی تفصیلات ظاہر کرتی ہیں کہ ریلا فنانشل کارپوریشن کے اکاؤنٹس سے 12 لاکھ ڈالر منتقل کیے گئے۔ جس میں گولڈمین سیک اے جی زیورخ نے یکم دسمبر 2011 کو 9 لاکھ 50 ہزار ڈالر اور ڈھائی لاکھ ڈالر منی مارکیٹ سے سرمایہ کاری کے لیے منتقل کیے گئے۔
آکاموٹو ہولڈنگز کے بانڈ کی مالیت 31 دسمبر 2018 تک 52 لاکھ 18 ہزار 964 ڈالر تھی ۔ کانفیڈینشل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی ’’ سائفین‘‘ کے مطابق کیمون آئرلینڈز اتھارٹی اور برٹش آئرلینڈز کی تحقیقات کے مطابق اس سلسلے میں خاصا مواد موجود ہے جو مشکوک ٹرانزیکشن کی مزید تحقیقات کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اگر پاکستانی اتھارٹی اس سلسلے میں مزید تحقیقات کرنا چاہئیں تو ان سے رابطہ کرسکتی ہیں۔ اسی طرح کی معلومات رائل کیمون آئرلینڈز کے فنانشل انوسٹی گیشن یونٹ اور پولیس سروس انٹیلی جنس نے بھی فراہم کی ہیں جو 6 صحفات پر مشتمل ہیں۔
کانفیڈینشل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی ’’ سائفین‘‘ نے پاکستان حکام کو آگاہ کیا ہے کہ ان کے پاس اس خاندان سے متعلق بیٹر فیلڈ بینک کے کافی ثبوت اور دستاویز ہیں اور وہ انہیں متعلقہ اتھارٹی کو فراہم کرنے کو بھی تیار ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں تحقیقات سردمہری کا شکار ہیں اور تحقیقاتی فائلیں جوں کی توں پڑی ہیں۔ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ، نیب اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے متعلقہ یونٹ بھی اس سلسلے میں روایتی سست روی دکھا رہے ہیں۔
اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کے جانے کے بعد مسلم لیگ نون کی حکومت ایک بار پھر برسر اقتدار آگئی ہے اور جہانگیر صدیقی سمیت صدیقی خاندان سکھ کا سانس لے رہا۔ اس سلسلے میں کرپشن کی تحقیقات کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
تحقیقاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ وائٹ کالر جرائم میں بروقت ثبوت حاصل کرنا اور پھر اس پر ایکشن لینا انتہائی ضروری ہوتا ہے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ثبوتوں اور مواد کی اہمیت ماند پڑجائے گی اور حالات اور مواد تبدیل ہونے سے اس میں ملوث افراد اور منی لانڈرز کے خلاف ایکشن لینا مزید مشکل ہوجائے گا۔