خام مال کی درآمد پر پابندی، موبائل فون انڈسٹری تباہی کے دہانے پر، 20 ہزار نوکریاں داؤ پر لگ گئیں

پاکستان میں کئی موبائل فون اسمبلی یونٹس بند ہوجانے کی وجہ سے ہزاروں افراد کی نوکریاں داؤ پر لگ گئی ہیں ، جبکہ حکومت درآمدی خام مال کی اجازت نہیں دے رہی۔

ملک کے تقریباً تمام 30 موبائل فون اسمبلی یونٹس میں سے تین غیرملکی یونٹ بند ہو گئے ہیں۔ یہ تینوں یونٹس غیرملکی برانڈز کے خام مال سے چلائے جاتے ہیں، مینوفیکچررز کا کہنا ہے کہ درآمدی پابندیوں کے وجہ سے ان کے پاس خام مال ختم ہو گیا ہے، جس سے تقریباً 20,000 ملازمین کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔

روزنامہ ڈان نے رپورٹ کیا ہے کہ زیادہ تر کمپنیوں نے ملازمین کو اپریل کی تنخواہوں کا نصف ایڈوانس ادا کرنے کے بعد فارغ کر دیا ہے۔ کمپنی سے انہیں پیغام ملا ہے کہ جیسے ہی پروڈکشن دوبارہ شروع ہو گی انہیں واپس بلالیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے 

ہنڈا اٹلس کا پیداوار کی بندش میں مزید 15 روز کی توسیع کااعلان

برآمدی آمدن کی واپسی میں تاخیر پر3 سے 9 فیصد تک جرمانہ عائد کرنیکا فیصلہ

ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے موبائل فون بنانے والی کمپنی کے مالک نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے انہیں رمضان میں ملازمین کو گھر بھیجنا پڑا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق مالک کا کہنا تھا کہ "میرے خاندان کے تین موبائل پروڈکشن یونٹس ہیں، جو وزارت خزانہ کی نااہلی اور عجیب و غریب پالیسیز کی وجہ سے سب بند پڑے ہیں۔”

انہوں نے حکومتی پالیسیز کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ "حکومت نے درآمد کنندہ کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (LC) حاصل کرنا مشکل بنا دیا ہے- کریڈٹ آف لیٹر وہ دستاویز ہوتی ہیں جو اس بات کی ضمانت دیی ہیں کہ خریدار کی جانب سے بیچنے والے کو ادائیگی وقت پر اور صحیح طور پر کردی گئی ہے۔ لیٹر آف کریڈت کی بندش سے موبائل فون مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والے اہم آلات اور پرزوں کی درآمد رک گئی ہے۔

پاکستان موبائل فون مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی ایم پی ایم اے) نے ایک حالیہ خط میں وزارت آئی ٹی کو آگاہ کیا کہ مقامی موبائل سپلائی تقریباً بند ہو چکی ہے اور مارکیٹوں میں بھی موبائل فون کی قلت کا سامنا شروع ہو گیا ہے۔

ایسوسی ایشن کے چیئرمین حاجی عبدالرحمٰن کی طرف سے لکھے گئے خط میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ یہ صورتحال صارفین کے لیے بھی اتنی ہی پریشان کن ہے، جنہیں مقامی طور پر تیار کیے جانے والے موبائل سیٹ کے لیے کافی کم قیمت ادا کرنی پڑتی تھی۔

حاجی عبدالرحمٰن نے ڈان نیوز کو بتایا کہ کم قیمت والے درآمدی فونز اور مقامی طور پر اسمبل شدہ یونٹس کی قیمتیں قریب آ رہی ہیں، جس سے ان کے بقول مقامی سیٹس کی فروخت کو نقصان پہنچے گا۔

حاجی عبدالرحمٰن نے بتایا ہے کہ آئی ٹی کی وزارت کو لکھے گئے خط میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ملک کی موبائل انڈسٹری، جس میں تین غیر ملکی اسمبلی یونٹس سمیت 30 مینوفیکچرنگ یونٹس بند ہونے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ان کے بقول بہت سے سرمایہ کار اپنی توجہ دیگر شعبوں کی طرف مبذول کر سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کمپنیوں کے پاس خام مال تقریباً ختم ہو چکا ہے، جو زیادہ تر چین، جنوبی کوریا اور ویت نام سے آتا ہے۔

موبائل مینوفیکچررز نے کہا ہے کہ صنعت کو پوری صلاحیت سے کام کرنے کے لیے ہر ماہ 170 ملین ڈالر کے درآمدی پرزے اور آلات درکار ہوتے ہیں، لیکن حکومت ڈالر کی کمی کے باعث کریڈٹ لیٹر کھولنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دسمبر کے آخری ہفتے سے کوئی ایل سی نہیں کھولی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ایک بار جب کسی صنعت کو بڑے پیمانے پر بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اسے دوبارہ شروع کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔

موبائل فون کی صنعت 20,000 نوجوان پاکستانیوں کو ملازمت دیتی ہے اور بالواسطہ طور پر مزید 20,000 ملازمتیں پیدا کرتی ہے۔

پی ایم پی ایم اے نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ مناسب مقدار میں پرزہ جات کی درآمد کی اجازت دے، جو صنعت کو نصف صلاحیت پر چلنے دینے کے لیے کافی ہو۔

متعلقہ تحاریر