سندھ کے بلدیاتی انتخابات: جمہوریت کا بہترین انتقام

صوبہ سندھ کے 4 ڈویژوں کے 14 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج کو جے یو آئی (ف) اور ایم کیو ایم (پ) سمیت 8 جماعتوں نے مسترد کرتے ہوئے پیپلز پارٹی پر دھاندلی کے الزامات لگا دیئے ہیں۔

سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ۔ ف) اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم ۔ پ) سمیت 8 جماعتوں نے بڑے پیمانے میں دھاندلی کی اطلاعات نتائج کو مسترد کردیا ہے اور الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔ غیر مصدقہ اور غیرسرکاری انتخابی نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے مخالفین کو پچھاڑ دیا ہے۔

صوبہ سندھ کے 14 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پرتشدد واقعات میں کم از کم دو افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیے

پی پی پی نے معاہدے پر عملدرآمد نہ کیا تو اپنے فیصلوں میں آزاد ہوں گے، وسیم اختر

وہم و گمان میں بھی نہیں تھا آرمی چیف کی تبدیلی گلے پڑجائے گی، عمران خان

اتوار کے روز صوبے کے چار ڈویژنوں کے 14 اضلاع میں ضمنی انتخابات کے لیے ووٹنگ ہوئی ، 11 ملین سے زائد ووٹرز نے چھ سال بعد اپنے شہروں اور دیہات کے بلدیاتی نظام کے لیے اپنے نمائندوں کا انتخاب کیا۔

101 ٹاؤن کمیٹیوں، 23 میونسپل کمیٹیوں، 14 ضلع کونسلوں، چار میونسپل کارپوریشنوں، 11 ٹاؤن میونسپل کارپوریشنوں اور 887 یونین کونسلوں اور یونین کمیٹیوں کی 6،277 نشستوں کے لیے 21,298 امیدوار انتخابی میدان میں اترے۔

کئی اضلاع سے بیلٹ پیپرز غائب ہونے، انتخابی عملے کے اغواء، انتخابی نشانات کی تبدیلی اور پولنگ کے تاخیر سے شروع ہونے پر ، قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعتوں جے یو آئی (ف) اور ایم کیو ایم (پاکستان) اور دیگر جماعتوں نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔

انتخابی عمل میں دھاندلی پر احتجاج کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے رہنما راشد محمود سومرو کا کہنا تھا کہ جمعیت کے اکثریتی علاقوں جوڑاس میں ، پنوں عاقل میں ، کندھ کوٹ میں ، ٹھل میں جمعیت کے کارکنوں پر پیپلز پارٹی کے لوگوں نے تشدد کیا ہے ، ان کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں ، ان کا کہنا تھا ہم انتخابی نتائج کر مسترد کرتے ہیں اور اپنا آئندہ کا لائحہ عمل اختیار کرنے میں آزاد ہیں۔

پولنگ کا عمل صبح 9 بجے شروع ہوا جو بغیر کسی وقفے کے شام 5 بجے تک جاری رہا۔ انتخابات کے دوران 946 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔

جن پولنگ اسٹیشنز پر ووٹنگ کا عمل رک گیا تھا وہاں پر الیکشن کمیشن نے پولنگ کے اوقات کار میں توسیع کردی۔

جیسے ہی پولنگ کا عمل شروع ہوا متعدد اضلاع سے بدانتظامی کے اطلاعات آنا شروع ہوگئیں، سکھر، سانگھڑ اور تھرپاکر میں پرتشدد کے بعد علاقے میدان جنگ میں تبدیل ہو گئے۔ فائرنگ اور مسلح تصادم کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوگئے۔

غیر سرکاری نتائج نے میونسپل کمیٹیوں مٹھی، کندھ کوٹ، شکارپور، جیکب آباد اور گھوٹکی میں پیپلز پارٹی کو کامیابی حاصل کر لی ہے۔

سندھ میں حکمران جماعت کے امیدواروں نے ٹاؤن کمیٹیوں کشمور، خیرپور، کھپرو، دور، مدیجی اور ٹھل میں بھی اکثریت حاصل کرلی ہے۔

دوسری جانب گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی اے ڈی) کے امیدواروں نے خیرپور ضلع کے کنگری قصبے اور میونسپل کمیٹی پیر جو گوٹھ کے ساتوں وارڈوں میں بھی کلین سویپ کیا ہے۔

ضلع سانگھڑ میں جی ڈی اے نے میونسپل کمیٹی سانگھڑ میں 12 وارڈز پر مشتمل نصف نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ باقی نصف پر نشستوں پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے۔

سندھ کے معروف سیاسی خاندان جتوئی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے درمیان اتحاد نے خیرپور میں ٹاؤن کمیٹی کا انتخاب جیت لیا ہے۔

پولنگ اسٹیشنز پر پرتشدد واقعات

ووٹنگ کے دوران کئی پولنگ اسٹیشنز پر سیاسی جماعتوں کے کارکنان کے درمیان مسلح جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔

مختلف اضلاع میں دھاندلی، ہنگامہ آرائی، پولنگ بوتھ غائب کرنے اور پولنگ عملے کو قید کرنے کی اطلاعات کے ساتھ بعد ووٹنگ روک دی گئی۔

روہڑی میں پولنگ کا عمل روکنے پر دو حریف گروپس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک شخص موقر پر ہلاک جبکہ دو زخمی ہو گئے۔ فائرنگ کے بعد پولنگ اسٹیشنز میدان جنگ میں تبدیل ہو گئے اور ووٹرز میں بھگدڑ مچ گئی۔

ٹنڈوآدم کے وارڈ 13 میں پی پی پی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان تصادم ہوا جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے امیدوار قیصر خان گنڈا پور کے بھائی ظفر خان گنڈا پور جاں بحق ہوگئے ، وہ لڑائی کے دوران زخمی ہو گئے تھے۔

قتل کے بعد وارڈ 13 میں پولنگ روک دی گئی، پی ٹی آئی امیدوار نے الزام لگایا کہ ان کے بھائی کو پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے تشدد کرکے قتل کیا ہے۔

خیرپور میں جی ڈی اے اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں تصادم کے نتیجے میں 5 افراد زخمی ہوگئے۔ تشدد کے نتیجے میں پولنگ اسٹیشنز بند کردیئے گئے۔

اس سے قبل الیکشن کمیشن کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سطان راجہ خود انتخابی عمل کی نگرانی کر رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انتخابی عملے نے ان علاقوں میں تیزی سے کارروائی کی جہاں پر تشدد کی اطلاع بعد پولنگ بند کردی گئی تھی۔

انہوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں اور بلا خوف و خطر اپنے ووٹ ڈالیں۔

‘غلط پرنٹ شدہ بیلٹ پیپرز’

دریں اثنا، ای سی پی نے اپنے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر یہ اعلان کیا کہ کچھ اضلاع میں بیلٹ پیپرز پر امیدواروں کے نام غلط چھپ گئے تھے۔

اطلاعات کے مطابق ان علاقوں میں انتخابات ملتوی کر دیئے گئے جہاں بیلٹ پیپرز پر امیدواروں کے نام غلط چھپ گئے تھے ، نئے شیڈول کا اعلان بعد میں کیا جائےگا۔

ترجمان ای سی پی کا کہنا ہے معاملے کی انکوائری شروع کر دی ہے۔

بلا مقابلہ فتوحات

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یونین کونسلز اور یونین کمیٹیوں کی 887 نشستوں میں سے 135 نشستوں پر امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہو گئے ہیں جبکہ 752 نشستوں کے لیے 3190 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔

ضلع کونسلر کی 794 نشستوں میں سے 107 امیدوار بلا مقابلہ اور 687 نشستوں پر 2604 امیدوار میدان میں ہیں۔

یونین کمیٹی اور یونین کونسل وارڈ کونسلرز کی 3548 نشستوں میں سے 622 امیدوار بلا مقابلہ جبکہ 2926 نشستوں پر 9744 امیدوار میدان میں ہیں۔

علاوہ ازیں ٹاؤن کمیٹیوں کے وارڈ کونسلرز کی 694 نشستوں میں سے 68 امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوئے اور باقی 626 نشستوں کے لیے 3225 امیدوار میدان میں ہیں۔

متعلقہ تحاریر