دامن کو زرا دیکھ ۔۔۔ زرا بند قبا دیکھ
آپ کہتے ہيں کہ بے پردہ عورت مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ آپ کہتے ہيں کہ ريپ کی وجہ اُس خاتون يا لڑکی کے چھوٹے چھوٹے کپڑے ہيں۔ اگر واقعی ايسا ہے تو پھر تين سال کی بچی کے ريپ کو کيا کہيں گے؟ کيا تين سال کی بچی کا لباس نامناسب ہوتا ہے؟ بچی تو چھوڑیئے يہاں تو تين سال کے بچوں، بليوں اور مرغيوں تک کو چھوڑا نہيں جاتا۔ پھر آپ مدرسہ اسکينڈل کو کيا کہيں گے؟ اس کے بعد مفتی عبدالقوی کی تازہ ترين ويڈيو کو کيا نام ديں گے؟ اور تو اور کچھ دن پہلے ساحل سمندر پر کھڑے ايک وحشی کی ويڈيو بھی نظروں سے گزری ہوگی جسے سمندر کے پانی ميں بھی شہوت نظر آئی۔ بھلا ہو اس سوشل ميڈيا کا جس سے کچھ نہيں چُھپتا۔
کيا ريپ جيسے سنگين گناہ کی وجہ عورت کا لباس ہے؟ نہيں، بالکل نہيں ۔۔۔ يہ تو آپ نے ريپ کرنے والے کو جواز فراہم کرديا کہ بھئی اس لڑکی کا لباس تنگ تھا اس لیے مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اس کا ريپ کرديا۔ وہ بچی پيمپر پہنے تھی یا وہ بچہ نگ دھڑنگ کھیل رہا تھا۔ جناب آپ نے تو بجائے مجرم کو مورد الزام ٹہرانے اور اسے سزا دینے کے وکٹم (متاثرہ) کو ہی مورد الزام ٹہرادیا۔ کيا آپ قصور کی زينب کو بھول گئے؟ جسے اس کے پڑوسی نے جنسی زيادتی کا نشانہ بنايا اور پھر گھر والوں کے ساتھ مل کر اسی کے قاتل کو بھی ڈھونڈتا رہا۔
آپ کہتے ہيں کہ ہمارے معاشرے ميں نائٹ کلب نہيں اس لیے زيادتی کے واقعات رونما ہوجاتے ہيں، کيا واقعی ايسی بات ہے؟ کيا واقعی مردوں کو اس کے علاوہ اور کوئی کام نہيں؟ کيا مرد اتنے کمزور ہيں جيسے آپ نے بيان کيا؟ نہيں۔۔۔ مرد تو حضرت يوسف عليہ اسلام بھی تھے جنہوں نے اپنے محسن کی امانت میں خیانت نہ کی۔ اب اس سے آگے اور کيا لکھوں؟ آپ نے سورہ یوسف تو پڑھی ہی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیے
کچھ ماہ پہلے زیادتی کے مجرمان کو نامرد بنانے کی بات بھی کی گئی تھی، کئی روز تک اس معاملے پر بحث ہوتی رہی لیکن نتیجہ صفر نکلا۔ لیکن سوچیے کہ اگر واقعی ایسا ہوگیا تو کیا ہوگا۔ ہمارا معاشرہ اتنا مسخ ہوچکا ہے کہ کس کس کو پکڑیں گے؟
آخر آپ يہ کيوں نہيں سمجھتے کہ انسان کی عادت تبديل کی جاسکتی ہے ليکن فطرت نہيں اور جو ذہنی بیمار ہو اس کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں۔ جس طرح رفح حاجت ضروری ہے ويسے ہی سيکس بھی ایک فطری عمل ہے جو نارمل انسانوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن جب یہ حد سے بڑھ جائے تو بیماری کہلاتا ہے، اور بیماری بھی ذہنی۔ ایسے شخص کو پھر تین سال کی بچی میں بھی شہوت نظر آئے گی اور قبر ميں دفن مردہ عورت ميں بھی۔ کيا ہمارے معاشرے ميں نکاح کرنا اتنا مشکل ہوگيا ہے کہ مرد ادھر ادھر منہ مارتے پھريں؟
خواتين اور بچياں نہ گھروں ميں محفوظ ہيں، نہ باہر اور نہ قبر کے اندر۔ کيا انہيں پيدا ہوتے ہی زندہ دفنا دينا چاہيے؟ يا مرنے کے بعد انہيں دفنانے کے بجائے جلا دينا چاہيے؟ يا ننھی بچيوں کو لوہے کے کپڑے پہنا دينے چاہئيں؟ کيا ہميں اپنی بيٹيوں سے زيادہ بيٹوں کو سکھانے کی ضرورت نہيں کہ يہ لڑکی بھی تمہاری بہن جيسی ہی ہے۔ اس کا بھی ويسے ہی احترام کرنا ہے جيسا گھر کی عورتوں کا کرتے ہو۔
سورۃ نور ميں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ اْن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اْس سے باخبر رہتا ہے۔‘
ميں نے تو خوامخواہ ہی قران کی آيت کا حوالہ دے ديا، يہاں تو دین کے ٹھیکے دار بھی اغلام بازی کو واجب سمجھنے لگے ہيں۔ ایسے علماء کے خلاف نہ کوئی آواز اٹھتی ہے اور نہ کوئی شور مچاتا ہے۔ اور تو اور اسلامی نظریاتی کونسل بھی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
بدبخت مفتی نے اعتراف جرم بھی کرلیا لیکن اس کے پیٹی بھائی اس کے فعل کو ٹھیک قرار دے رہے ہیں۔ کئی تو باقاعدہ ایسے مولویوں کو سپورٹ بھی کررہے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو سوشل میڈیا پر کئی گئی پوسٹوں پر تبصرے پڑھیے۔ پاکستان میں پنپنے والی ذہنیت کا اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا۔
اگر آپ اس ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں، اسے ریاست مدینہ سمجھتے ہیں تو پھر قانون بھی وہی رائج کیجیے جو قرآن میں تجویز کیا گیا ہے۔ سزا بھی ویسی ہی سخت مقرر کیجیے جیسی دیگر اسلامی ممالک میں رائج ہے۔
جس سماج میں ذہنی مریض افراد حاکم بنا دیئے جائیں تو وہ ریاست مدینہ تو درکنار بلکہ ذہنی مفلوج کا وہ جنگل ہوگی جہاں طاقتور اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر کمزور پر حملہ آور ہوگا اور پھر احترام اور انسانی مرتبے کے آلودہ چیتھڑوں میں حکمران ننگ دھڑنگ اپنی تہذیب کا عبرت ناک انجام ہوں گے۔