میرے وطن کے گونگے لوگوں کو آج زبان لگ گئی ہے

امید ہے میرے قارئین بخیریت ہونگے اور میں اللہ تعالیٰ کے حضور انکی صحت و تندرست لمبی زندگی کامل ایمان کیلئے دعاگو ہوں۔

آج میں اپنی خوشی کا اظہار کروں کہ میرے وطن کے گونگوں کو بھی زبان لگ گئی ہے یا انکی زبان لگنے سے غم زدہ ہو جاؤں کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ آج میں جشن مناؤ یاغم سے نڈھال ہو جاؤں آج پاکستان بننے 75سال ہو چکے ہیں۔اور ان 75سالوں میں میرے ملک کے کیسے بھی حالات آئیں ہوں پر میرے وطن کے گونگوں کو کبھی زبان نہیں لگیں ویسے تو ان75 سالوں کی تاریخ گواہ ہے کہ میرا پیارا وطن زیادہ تر فوجی آمریت کے سائے تلے ہی پروان چڑھا ہے۔ ان 75سالوں میں جمہوریت نے انگڑائیاں لیں ہیں۔پر میرے وطن کے گونگوں کو کبھی زبان نہیں لگیں۔

یہ بھی پڑھیے

منی بجٹ یا مہنگائی کا طوفان؟

میرے ملک کے حالات پہلے بھی اس سے مختلف نا تھے۔ چینی اور آٹا چوروں کا راج پہلے سے ہی چلا آرہا ہے پہلے بھی کئی حکومتیں مہنگائی کا خاتمہ کرتے کرتے چلتی بنی ہے پر آج تک نا مہنگائی کنٹرول ہوسکی ہے اور ناہی غربت میں کمی آ سکی ہے بلکہ ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ چینی اور آٹا چور جیسے مافیا کا راج بھی ختم نا ہوسکا۔ عوام ذوالفقار علی بھٹو کے دور شعور سے سمجھدار تھی اور سمجھتی تھی کہ یہ ملک آخر ترقی کیوں نہیں کرپا رہا ہے۔ میرا نوجوان کیوں بے روزگار ہے۔ میرا کسان کیوں بدحالی کا شکار ہے  لیکن وہ گونگی تھی صرف اشہاروں کناروں میں بات کرتی تھی۔ پر آج سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار عرف بابا رحمتے کے کنٹرورشل فیصلوں نے ایک منتخب حکومت کے وزیراعظم کے خلاف  سازش کی جبکہ موجودہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے دھرنوں سے اب تک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر میرے وطن کے گونگوں کو بھی زبان لگ گئیں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے جمہوریت کی بساط کچھ اس طرح سے سنبھالیں ہیں اور اپنے مہرے اس طرح سے چلائیں ہیں کہ سب کو بے پردہ کردیا ہے۔ پہلے میرے وطن کے خیر خواہوں کے بارے میں چادر اور چار دیواری میں باتیں ہوا کرتی تھی۔ انکا خوف ہوا کرتا تھا۔ کہ کہیں انکی کوئی بات دیوار کے کانوں تک بھی نہ پہنچ جائے۔ لیکن بدقسمتی سے موجودہ حکومت کی نااہل پالیسیوں کے تحت اور پتا نہیں کس ایجنڈے کے تحت عمل پیرا ہو کر میرے وطن کے گونگوں کو زبان دے دی ہے اور وہ میرے وطن کے خیر خواہوں کے بارے میں کھلم کھلا گلی کوچوں اور چوراہوں میں بیٹھ کر انکے بارے میں الٹی سیدھی بحث بازی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آتنا تو کبھی کسی آمر فوجی نے اپنے ادارے کو نقصان نہیں پہنچایا ہوگا جتنا اس حکومت کے وزیر اعظم عمران خان نے پہنچا دیا ہے۔ پتا نہیں عمران خان صاحب کی ناتجربہ کاری نے ایسا کیوں کیا ہے یا وہ خود جان بوجھ کر ایسا کررہے ہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ میرے وطن کے گونگوں کو زبان کیوں دی گئی ہے۔ کیا ملک کو غیر مستحکم کرنے کی بیرونی سازش ہے۔جس  کہ تحت میرے وطن کے گونگوں کو زبان دی گئی ہے۔تاکہ پاکستان کو ایٹمی قوت  ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ میرے ملک کے تمام اثاثوں کو کوڑیوں کے بھاؤ بیرونی آقاؤں کے حوالے کیے جارہے ہیں۔ یہ ملک 75سالوں سے چلتا آرہا ہے ۔کئی ادوار فوجی آمروں کے بھی گذرے ہیں۔ پر ایسے حالات کبھی نہیں ہوئے کہ چند روپوں کے عوض ملک گروی رکھ دیا گیا ہو۔ پہلے بھی آئ ایم ایف سے قرضے لئے گئے ہیں اور ان قرضوں میں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی بھی سب کہ سامنے ہے لیکن یہ واحد حکومت آئ ہے جس کے باس قرضوں کی تو فہرست موجود ہے پر ترقیاتی کاموں کے منصوبوں کی کوئی فہرست موجود نہیں بلکہ پچھلی حکومت کے دورے اقتدار میں ہونے والے ترقی کے منصوبوں پر بھی کام روک دیا گیا یا سست روی کا شکار بنا دیا گیا۔اخر یہ سب کس کہ اشاروں پر کیا گیا ہے ان سب کہ پچھلے کون ہیں ہمارے خیر خواہوں کو بدنام کرنے کے پیچھے کون ہے کس کہ کہنے پر میاں ثاقب نثار نے ایک ترقیافتہ ملک کو اندھیری کھائیوں اور بحرانوں کے حوالے کر دیا۔ ایسا انہوں نے کیوں کیا ۔ کیا ہمارے ملک کہ خیر خواہ ادارے ان سے جواب طلب کرینگے کہ ان کہ ماتھے پر یہ بدنامی جو لگائی جارہی ہے وہ کس کہ کہنے پر اور کیوں لگائی گئی ہے۔ ان سے کوئی جواب طلب کریگا کہ آپ نوکری اور ریٹائرمنٹ کا پیسہ وطن عزیز سے لیں اور پھر بعد میں ملک کو بحرانوں کہ حوالے کر کہ آپ بیرون ملک مقیم ہوجائیں ایسا کب تک چلے گا ۔۔ اور یہ آخر کب اور کہاں جا کر روکے گا ۔ کب ہر ادارہ اپنی آپنی حدود میں رہ کر کام کریگا کب میرا ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوکر میرے نوجوانوں کو روزگار فراہم کریگا کب میرے ملک کا کسان خوشحالی کی زندگی بسر کریگا ۔ان 75سالوں میں تمام اداروں نے دیکھ بھی لیا ہے اور سمجھ بھی لیا ہے ہماری بقاء اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے میں ہی ہے۔ ورنہ تاریخ کبھی معاف نہیں کریگی۔ہم ایک بار پھر شاید انگریزوں کے طابع نہ ہو جائیں۔ موجودہ حالات کچھ اسی طرف جانے کے اشارے دے رہےہیں ۔لہزا ابھی بھی ہم سنبھال سکتے ہیں آپ ملک کو ایک بار پھر ترقی کی طرف گامزن کرسکتے ہیں پر سب کو ملکر چلنا ہوگا اور ہر کسی کو صرف اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا پھر ہماری وطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی میں رکاوٹ ڈالنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

متعلقہ تحاریر