منی بجٹ یا مہنگائی کا طوفان؟

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شور شرابے کے دوران منی بجٹ پیش کردیا گیا۔ منی بجٹ کی پرتیں کھلنےمیں تو وقت لگےگا لیکن بظاہر جونظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ ماچس کی ڈبیا سے لےکرگاڑیوں تک سب مہنگا ہوگیا ہے۔ یعنی حکومت نے آئی ایم ایف کے 700ارب کے ٹیکس لگانےکےمطالبے کو آدھا مان لیا ہے ۔

منی بجٹ میں تقریباً 150 اشیا پر سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ کو ختم کر دیا گیا ہے یا اس کی شرح 17 فیصد کر دی گئی ہے جس سے حکومت کو اپنے خزانے میں 343 ارب روپے اضافے کی توقع ہے۔ فنانس ترمیمی بل منظور ہونےکےبعد پاکستانیوں پر ساڑھے تین سو ارب کے اضافی ٹیکس نافذ ہوجائینگے۔

یہ بھی پڑھیے

اندرونی جنگ

دامن کو زرا دیکھ ۔۔۔ زرا بند قبا دیکھ

چئیرمین ایف بی آر کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف ایک حقیقت ہے۔آئی ایم ایف نے ہر چیز پر سترہ فیصد جی ایس ٹی لگانےکاکہا تھا ۔۔ اور ہم نےلگادیا۔

پاکستان کے شہریوں کو باہر سے آنےوالی اشیا پر اضافی پیسے دینا ہونگے، فلیورڈ دودھ ، چاکلیٹ ،دہی ، مکھن ، پنیر، کریم ، دیسی گھی ، نمک ، مرچ ، پولٹری ، مچھلی ، گوشت ، زندہ جانوروں اور افغانی سیب سمیت بیکر آئٹمز اور مزید کئی اشیا پر ٹیکس لگےگا۔ پاکستان میں دالوں کی پیداوار کم کی جاتی ہے اسلئے درآمد کی جانے والی دالوں پر بھی ٹیکس لگے گا، یہی نہیں غربت کا نشان یعنی سلائی مشین پر بھی ٹیکس لگانےکافیصلہ کیا گیا ہے ۔

منی بجٹ میں بچوں کے دودھ کو بھی نہیں بخشا گیا، اس بات سے قطع نظر کہ کمزور اور علیل بچوں کو ڈاکٹرز ڈاکٹر بالعموم غیرملکی فارمولا دووھ تجویز کرتے ہیں ۔

دواوں پر اتنے پیسے بڑھادیے گئے ہیں کہ عوام اب ڈاکٹرکے پاس جانے سے ڈرنےلگے ہیں، گزشتہ پانچ سال میں دواوں پر پانچ سو فیصد پیسے بڑھ چکے ہیں۔ اور حکومتی وزرا کی لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ وزیرداخلہ شیخ رشید گزشتہ دنوں بیمار ہوئے اس کےبعد کہنےلگے کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ دوائیاں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں۔

سونےچاندی کے زیورات پر ٹیکس ایک فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کردیا گیا ہے۔ بیوٹی پارلرز اور سلمنگ سینٹرزجانےوالےبھی پانچ فیصد ٹیکس دینگے۔

وزيرخزانہ شوکت ترين دورکي کوڑي لے آئے۔۔ کہتے ہيں عام آدمي پر صرف دو ارب کے ٹيکس لگيں گے۔۔ کون سا مہنگائي کا سونامي آجائے گا۔۔۔

وزیرخزانہ صاحب صرف دو ارب؟

آپ تو وزارت کے شوق میں یہ بھول گئے کہ جن چیزوں پر ٹیکس لگایا گیا وہ غریب ہی استعمال کرتے ہیں۔

ماہرین معاشیت کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ کے دعوے میں حقیقت نہیں اور یہ منی بجٹ مہنگائی کی نئی لہر کو جنم دے گا۔ ملک میں بیکری آئٹم ایک عام آدمی ہی استعمال کرتا ہے جس میں امیر و غریب دونوں شامل ہیں، اس پر سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ۔ اسی طرح پیکٹوں میں دستیاب مرچوں اور مصالحوں پر بھی سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے جس کا خریدار امیر کے ساتھ غریب آدمی ہی ہوتا ہے۔

حکومت آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کے لیے لوگوں کی جیب سے دو ارب ڈالر نکالنے جا رہی ہے۔اس منی بجٹ کی منظوری کے بعد لوگوں کی قوت خرید میں کمی آئے گی جو ایک غریب آدمی کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید مشکلات کا شکار بنائے گا۔

نیا سال آگیا ہے لیکن غریب اسی پرانے سال میں جئےگا اور ان ہی مشکلات اور پریشانیوں سے نبرد آزما ہوتارہےگا۔

کسی شاعر نے برسوں پہلے کیا خوب کہا تھا

نتیجہ پھر وہی ہوگا،سنا ہے سال بدلےگا

پرندے پھر وہی ہونگے،شکاری جال بدلے گا

وہی حاکم،وہی غربت،وہی قاتل،وہی غاصب

بتاو کتنے سالوں میں،ہمارا حال بدلے گا؟

متعلقہ تحاریر