بنگلادیش کپڑوں کی یورپی مارکیٹ میں چین کی اجارہ داری ختم کرنے کیلیے تیار
مالی سال 2022 کے پہلے 9 ماہ میں یورپی یونین کوبنگلادیش میں تیار ملبوسات کی برآمدات 42فیصد بڑھ کر 19.4ارب ڈالر تک جاپہنچی،چین کی ترسیلات 25.5ارب ڈالر رہیں،بنگلادیش 4 سے 5 سال میں چین کو پچھاڑ دیگا، ماہرین

بنگلادیش نے کپڑوں کی یورپی مارکیٹ میں چین کی اجارہ داری ختم کرنے کی تیاری کرلی۔
روس، یوکرین تنازع اور دیگر عالمی سیاسی تناؤ کے نتیجے میں سپلائی چینز کی منتقلی سے بنگلہ دیش کی یورپی ممالک میں رسائی آسان ہوگئی۔
یہ بھی پڑھیے
400ارب روپے خسارے کا شکار پی آئی اے کا تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کا اعلان
سی ای او حیسکول پیٹرولیم کی گرفتاری سے کمپنی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا
نکائی ایشیا کے مطابق یورپ کے لیے ترسیل کو بڑھانا بنگلہ دیش کی معیشت کے ایک اہم حصے کو تقویت دے گا، جس میں ریڈی میڈ ملبوسات کے تیارکنندگان پہلے ہی ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار کا پانچواں حصہ اور اس کی برآمدی آمدنی کا 80فیصد سے زیادہ حصہ ڈال رہے ہیں۔

یورپی یونین کے شماریاتی دفتریورو اسٹیٹ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بنگلا دیش کی یورپی یونین کو ملبوسات کی برآمدات 2022 کے پہلے 9 ماہ میں تقریباً 42 فیصد بڑھ کر 19.4ارب ڈالر تک پہنچ گئی جبکہ چینی کی ترسیل تقریباً 22 فیصد بڑھ کر 25.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔
بنگلا دیش گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (بی جی ایم ای اے) کے نائب صدر شاہد اللہ عظیم نے نکائی ایشیا کو بتایاکہ چین اور امریکا کے درمیان حالیہ تجارتی جنگ کی وجہ سے بہت سے ورک آرڈر چین سے بنگلہ دیش منتقل کیے گئے تھے۔ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ نے بہت سے برانڈز کو کپڑے اور ٹیکسٹائل سے لے کر کنزیومر الیکٹرانکس اور اسمارٹ فونز تک کے شعبوں میں غیر چینی سپلائرز تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے۔
بنگلا دیش میں تیار کردہ کپڑوں کے یورپی یونین کے بڑے خریداروں میں فیشن چینز H&M، Primark، Zara، G-Star Raw اور Marks & Spencer شامل ہیں۔

کپڑوں کی مستحکم برآمدات بنگلہ دیش کے لیے بہت ضروری ہیں کیونکہ وہ غیر ملکی زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے جس کے باعث حکومت کو رواں سال کے آغاز میں 4.7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا تھا۔
تقریباً 17کروڑ افراد کی آبادی کے ساتھ بنگلا دیش کے پاس بڑی باصلاحیت افرادی قوت موجودہے اور یہ تقریباً 45 ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے جو اس وقت اسلحہ اور گولہ بارود کے علاوہ یورپی یونین کی تمام مارکیٹوں تک ڈیوٹی فری اور کوٹہ فری رسائی سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ اس کے برعکس چینی برآمد کنندگان کو ڈیوٹی ادا کرنا پڑتی ہے۔
کپڑوں سمیت متعدد مصنوعات تیار کرنے والے ٹی اے ڈی گروپ جس کےتیار کردہ تمام ملبوسات یورپ جاتے ہیں ، کے منیجنگ ڈائریکٹرعاشق الرحمان کا کہنا ہے کہ ”خریداریورپی منڈیوں کے لیے زیرو ٹیرف برآمدی سہولت کے سبب بنگلا دیش کو ترجیح دیتے ہیں“۔
بی جی ایم ای اے کے ڈائریکٹر محی الدین روبیل کا کہنا ہے کہ”ملک کا لباس کا شعبہ ماحولیاتی تحفظ، پانی اور توانائی کی بچت اور کارکنوں کی بہبود سے متعلق معیارات کے مطابق کام کرتا ہے“۔

پیداوارکنندگان اور دیگر کو یقین ہے کہ بنگلادیش جلد ہی یورپ کو سب سے بڑا برآمد کنندہ ہوگا۔ بنگلہ دیش کے پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر احسن ایچ منصور کا کہنا ہے کہ”یورپی یونین کی مارکیٹ میں بنگلادیش چین کے قریب ہے، اس لیے 4سے 5 سال کے اندر ہم اسے پیچھے چھوڑ سکتے ہیں“۔
انہوں نے کہاکہ”دنیا بھر میں چین کا تیارملبوسات کامارکیٹ شیئر کم ہو رہا ہے۔ میرے خیال میں چین کی اس حصص کی حفاظت کے لیے کوئی اسٹریٹجک دلچسپی نہیں ہے کیونکہ ملک اب الیکٹرک کاروں جیسی اعلیٰ قیمتی اشیا تیار کرنے پر توجہ دے رہا ہے۔ اس لیے وہ پہلے کی طرح ملبوسات کی صنعت پر توجہ نہیں دے رہا ہے“۔









