ایف پی سی سی آئی نے شرح نمومنفی ہوجانے کے خدشات ظاہر کردیئے

صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے رواں مالی سال 2022-23 میں اقتصادی ترقی کی منفی شرح نمو کی پیش گوئی کرتے ہوئے  کہا کہ شرح نمو منفی ہونے کا امکان ہے

وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت پاکستان (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عرفان اقبال شیخ نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے زمینی حقائق سے نبرد آزما لوگ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ مالی سال2022-23 کے اختتام تک ملک کی اقتصادی ترقی کی شرح نمومنفی ہو چکی ہوگی۔

وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت پاکستان (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عرفان شیخ نےرواں مالی سال 2022-23 میں اقتصادی ترقی کی منفی شرح نمو کی پیش گوئی کرتے ہوئے  کہا کہ شرح نمو منفی ہونے کا امکان ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اسحاق ڈار نے چینی بینک سے 300 ملین ڈالر ملنے کی نوید سنادی

انہو ں نے بتایا کہ پچھلے 8 سے 9 مہینوں یعنی جولائی 2022 سے مارچ 2023کے اعداد و شمار اور معاشی کارکردگی کی بنیاد پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں (IFIs) نے پاکستان کی شرح نمو کے تخمینے میں بڑی حد تک نیچے کی طرف نظر ثانی کی ہے۔

عرفان شیخ کے مطابق ورلڈ بینک نے اسے صرف 0.4 فیصد کر دیا ہے جبکہ آئی ایم ایف نے 0.5 فیصد اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے 0.6 فیصد کردیا ہے۔

صدر ایف پی سی سی آئی نے آگاہ کیا کہ آزاد ماہرین اقتصادیات سال کے آخر تک معاشی شرح نمو کے منفی ہونے کا اندازہ لگا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ملک میں بے روزگارافراد کی تعداد میں لاکھوں افراد کا مزید اضا فہ ہونے جا رہا ہے۔

ایف پی سی سی ائی کے صر نے کہا کہ آزاد ماہرین اقتصادیات کے منفی شرح نمو کے یہ تخمینے منفی 1.0 فیصد سے لے کر منفی 2.5 فیصد تک ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملک کے لیے اس کی معاشی تاریخ کا سب سے بدقسمت منظر نامہ ہوگا اور اس کساد بازاری کے گھن چکر سے نکلنا بہت مشکل ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

الیکشن کیلیے 21 ارب نہیں مگر حکومت نے مارچ میں66ارب کا ترقیاتی بجٹ جاری کردیا

عرفان اقبال شیخ نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ ملک کی برآمدات اور برآمدات پر مبنی صنعتوں کو ہر قیمت پر تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے؛ ورنہ پوری معیشت زمین بوس ہو جائے گی۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسٹیٹ بینک کی ایکسپورٹ فنانس اسکیم (EFS) اور لانگ ٹرم فنانسنگ فیسیلٹی (LTFF) کو سازگار شرائط پر پیش کیا جانا چایئے اور ان کا انٹرسٹ ریٹ 10 فیصد سے کسی صورت زائد نہیں ہونا چایئے؛ تاکہ برآمد کنندگان اپنے زیر التواء برآمدی آرڈرز کو کسی نہ کسی صورت پورا کر سکیں۔

متعلقہ تحاریر