حکومت نے مہنگائی کی بجھتی آگ پر پھر پیٹرول چھڑک دیا

ٹوئٹر پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ٹرینڈ چل پڑا ہے جس میں صارفین حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ایک طرف مہنگائی میں کمی کے دعوے کر رہی ہے تو دوسری جانب اپنے ہی دعووں پر پیٹرول چھڑکتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کررہی ہے جس کا براہ راست اثر اشیا کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔

اتوار کے روز جاری ہونے والے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 2 روپے 70 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ اب پیٹرول کی نئی قیمت 111 روپے 90 پیسے فی لیٹر ہوگئی ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق 2 روپے 88 پیسے فی لیٹر اضافے کے بعد اسپیڈ ڈیزل کی قیمت نئی میں 116 روپے 7 پیسے ہوگئی ہے۔ لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 3 روپے فی لیٹر اضافے کی بھی منظوری دی گئی ہے جس کے بعد نئی قیمت 79 روپے 23 پیسے ہوگئی ہے۔

اس کے علاوہ مٹی کے تیل کی قیمت 3 روپے 54 پیسے کے اضافے سے 80 روپے 19 پیسے ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مہنگا بجلی پیٹرول حکومت مخالف تحریک سے زیادہ تقصان دہ؟

قیمتوں میں اضافے کا اطلاق گزشتہ شب 12 بجے سے ہوچکا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب بھی پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو نہ صرف عوام کی سفری سہولیات مہنگی ہوتی ہیں بلکہ روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی دیگر اشیاء بھی مہنگی ہو جاتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ مہنگی ہونے سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر براہ راست اثر پڑتا ہے کیونکہ اشیاء کی ترسیل میں بھی ٹرانسپورٹ کا عمل دخل لازمی ہوتا ہے۔

ادھر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ٹرینڈ چل پڑا ہے جس میں سوشل میڈیا صارفین حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔

ارم مشتاق نے لکھا کہ ‘جب پیٹرول 70 روپے فی لیٹر تھا تو وزیراعظم کرپٹ تھا، اب پیٹرول 112 روپے فی لیٹر ہے لیکن وزیراعظم ایماندار ہے۔’

ایک صارف نے لکھا کہ ‘اب پیٹرول کی قیمت غریب لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ یہ حکومت حزب اختلاف کے ساتھ کھیل رہی ہے اور وہ صرف امیروں کو ریلیف دے رہی ہیں۔’

چوہدری اسد نامی صارف نے لکھا کہ ‘ شرمناک بات کہ وزیراعظم عمران خان نے غریب عوام پر ایک ماہ کے دوران میں 3 بار پیٹرول بم گرایا۔’

ملک مزمل نواز نامی صارف نے مہنگائی کی سونامی کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے لکھا کہ ‘ہمیں نواز شریف کی ضرورت ہے۔’

پاکستان کی حکومت اکثر یہ دعوے کرتی ہے کہ اُس نے مہنگائی کے جن کو قابو کرلیا ہے اور قیمتیں نیچے آرہی ہیں۔ اِن دعووں کو ثابت کرنے کے لیے مشیران اور وزرا ء کی ایک فوج سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر موقف کا دفاع کرتی نظر آتی ہے لیکن پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور ٹوئٹر پر ٹرینڈز اُن کی آنکھوں سے اوجھل کیوں ہو جاتے ہیں؟

وہ وزیر اعظم کو عوام کی آراء کی بنیاد پر حکمت عملی وضع کرنے کا مشورہ کیوں نہیں دیتے؟ ا ور کیا عمران خان بطور وزیر اعظم قرضوں کی واپسی کے لیے اور انتظام حکومت چلانے کے لیے رقوم کا بندوبست پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے ہی کرتے رہیں گے؟ یہ سوال یقیناً ہر خاص و عام کے ذہن و زیان پر ہے لیکن اس کا جواب وقت کے پاس ہے۔ عمران خان کو اگلے عام انتخابات میں پیٹرولیم کی بڑھتی ہو قیمتوں کا نقصان اُٹھانا پڑے گا یا فائدہ ہوگا یہ بھی وقت طے کرے گا۔

متعلقہ تحاریر