بھاری ٹیکسز کے باوجود آئی ایم ایف پاکستانی بجٹ سے غیرمطمئن، ماہرین

آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام سے اگلی ملاقات سے قبل مزید سخت شرائط کی وارننگ جاری کردی ہے ، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے کم رہ گئے جبکہ نئے سال کے لیے پاکستان کو 41 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

سٹی گروپ کے ماہرین معاشیات کا کہنا ہے حکومتی اخراجات میں کمی کرنے ، بجٹ خسارے کو کم کرنے کی دیگر کوششوں اور بجٹ میں بھاری ٹیکسز عائد کرنے کے باوجود پاکستان ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو اپنے قرضہ پروگرام کو دوبارہ شروع کرانے میں کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

سٹی گروپ کے ماہرین معاشیات جوہانا چوا اور گورو گرگ نے اپنے ایک نوٹ میں لکھا ہے کہ "بجٹ میں ٹیکسز کی شرح بڑھنے سے یکم جولائی سے جی ڈی پی میں طے شدہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں 8.6 فیصد سے بڑھ کر 9.2 فیصد ہو جائیں گی۔ مہنگائی کی یہ شرح پاکستان کے مقابلے میں خطے کے دیگر میں ممالک میں کم ہیں، موجودہ بجٹ کے محصولات کا 44 فیصد حصہ اگلے سال قرضوں کی مد میں چلے جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

نان فائلر اداروں پر بجلی کے بلوں کے ذریعے اضافی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ

کراچی کے تاجر قومی جذبے کے تحت رات 9 بجے دکانیں بند کرنے پر راضی

سٹی گروپ کے ماہرین معیشت جوہانا چوا اور گورو گرگ نے اپنے نوٹ میں مزید لکھا ہے کہ ہم یہ سب کچھ اس وقت لکھ رہے ہیں جبکہ پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے درمیان ملاقات اگلے ماہ ہونی ہے ، مزید کیا طے ہوتا ہے ہمیں اس کا انتظار رہے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کو ممکنہ طور پر ڈیفالٹ سے بچنا ہے تو اسے آئی ایم ایف سے فوری طور پر 900 ملین ڈالر درکار ہوں گے ۔ خوراک اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ایشیا کے دوسرے بڑے ملک پاکستان میں افراط زر کو مزید بڑھاوا دیا ہے ، جبکہ 3 جون تک قرضوں کی ادائیگی کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 10 بلین ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں ، یہ زرمبادلہ کے ذخائر دو ماہ سے بھی کم درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

دوسری جانب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے پاکستان کو اگلے 12 مہینوں میں کم از کم 41 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، تاہم IGI سیکیورٹیز لمیٹڈ کے سعد خان سمیت دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

متعلقہ تحاریر