تمام تر شرائط پوری کرنے کے باوجود آئی ایم ایف سے معاہدے کی دستاویز ندارد
معاشی ماہرین کا کہنا ہے حکومت بار بار کہتی رہی ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے معاہدے کے سوا کوئی راستہ نہیں، عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑے جا چکے ہیں مگر معاہدے کو کہیں نام و نشان نہیں۔

حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی فنڈ سے تمام معاملات طے پا جانے کے باوجود معاہدے کی کوئی حتمی شکل یا دستاویزات سامنے نہیں آئیں جبکہ موجودہ حکومت ، تحریک انصاف کی سابق حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط پر عمل درآمد کو لازمی قرار دیتے ہوئے پٹرول، بجلی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ کرچکی ہے، ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر بھی شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
مفتاح اسماعیل وفاقی وزیر خزانہ،وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا اور دیگر حکومتی عہدیدار یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے معاملات طے پا گئے ہیں جس کے تحت پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کے چھ ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر کی قسط ملنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے جبکہ پاکستان کو پہلے ہی تین ارب ڈالرز مل چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ملک میں مہنگائی کا 13سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، عوام کی چیخیں نکل گئیں
اسٹیٹ بینک نے میرا گھر اسکیم کے تحت قرض کی فراہمی روک دی
پاکستان نے آئی ایم ایف سےقرض پروگرام 6 ارب ڈالر سے بڑھا کر 8 ارب ڈالر کرنے کی درخواست کی ہے اور آئی ایم ایف سےقرض کی مدت میں ایک سال کی توسیع بھی مانگی ہے، پاکستان خواہش مند ہے کہ پروگرام 2023 کے بجائے2024 تک جاری رہے۔
پاکستان کا گزشتہ مالی سال میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ بھی 13.2 ارب ڈالرز کی سطح تک پہنچ چکا تھا جبکہ ہمیں رواں مالی سال میں تقریباً 30 ارب ڈالرز قرض اور سود کی ادائیگیوں کی مد میں درکار ہیں۔ دوسری جانب آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب نہ ہونے کی صورت میں سوائے چین کے دیگر ممالک اور کئی مالیاتی ادارے سے بھی فنڈز کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو ملک کے بجٹ اور معاشی اشاریوں کو منفی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے معاہدہ نہ صرف قرض کے حصول کے لئے ضروری ہے بلکہ دیگر عالمی ادارے اور ممالک بھی قرض یا رعایت سے آئی ایم ایف سے معاہدے سے مشروط کرتے ہیں۔ حکومت بار بار کہتی ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے معاہدے کے سوا کوئی راستہ نہیں، عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑے جا چکے ہیں، صرف بجلی ، پیٹرول ، گیس اور خورونوش ہی مہنگی نہیں ہوئیں بلکہ رواں مالی سال 2022-23 کا بجٹ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا ہے، جس سے عوام کوکمر توڑ مہنگائی کا سامنا ہے اور مالی مسائل سنگین تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
معاشی تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے ڈالر کی گرانی اور روپے کی گرتی ہوئی قدر ملکی معیشت کے لیے تشویش کا باعث ہے جس سے مہنگائی بڑھتی چلی جارہی ہے اور بیرونی ادائیگیوں بھی متاثر ہورہی ہیں۔11 اپریل سے سے اکیس جون تک ڈالر کی قیمت میں 28 روپے تک بڑھ گئی،جس سے پاکستان کے غیر ملکی قرضوں میں 3600 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
معاشی ماہرین کے مطابق ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے معاہدے میں تاخیر ہے، جس نے پاکستان کے لیے بیرونی فنڈنگ روک رکھی ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی بڑی وجہ درآمدات میں اضافہ اور برآمدات کا کم ہونا ہے۔ پاکستان بہت سی اشیاء کی مقامی سطح پر تیار کرنے کی بجائے درآمد پر انحصار کرتا ہے یوں درآمدی بل بڑھ جاتا ہے۔
پاکستان کو زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے کیونکہ برآمدات کے حوالے سے بیرون ملک جانے والے ڈالروں کی تعداد برآمدات اور ترسیلات زر کے ذریعے اندرون ملک آنے والے ڈالر کے مقابلے میں بہت زیادہ فرق ہے۔
پاکستان میں اپریل کے آغاز پر نئی حکومت قائم ہوئی جسے کئی ماہ ہو چکے ہیں تاہم یہ بظاہر حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ پروگرام بحال کرانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی۔
پاکستان کو اپنے دیرینہ دوست چین سے 2 ارب 30 کروڑ ڈالر مل گئے ہیں اور مزید قرض ملنے کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف سے معاملات طے ہونے پر ایشیائی ترقیاتی بینک سے دو ارب ڈالر کا قرض اور عالمی بینک سے 40 کروڑ ڈالر ملنے کی بھی امید ہے۔
تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود کیا عالمی مالیاتی فنڈز اور حکومت پاکستان کے درمیان معاہدہ ہوگیا؟ یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کیونکہ اس معاہدے سے پاکستان کے مالیاتی معاملات جڑے ہوئے ہیں اور ملک کی معاشی بے یقینی کی صورتِ حال ختم ہونے میں نہیں آرہی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کوئی بھی ملک محض قرض پر نہیں چل سکتا، حکومت کو معاشی حالت کی بہتری کے لیے مالی خسارہ ختم کرتے ہوئے معاشی اصلاحات کرنی ہوں گی۔بجلی اور گیس کے شعبوں میں ہزاروں ارب روپے کے گردشی قرضوں سے جنم لینے والے خساروں کو ختم کرنا انتہائی ضروری ہے۔









