ہمدرد پاکستان کے تحت سود سے پاک نظام کے نفاذ پر اجلاس کا انعقاد

ہمدرد پاکستان کےزیر اہتمام میں ’’سود سے پاک نظام کا نفاذکیاایسا ممکن ہے؟‘‘کے موضوع پر اجلاس منعقد کیاگیا جس میں اسلامی مالیاتی امور کے ماہر ین شریک ہوئے،مقررین نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں شرح سود بہت کم ہے جس سے افراط زر کو کنٹرول میں رکھا جاتا ہے

جسٹس(ریٹائرڈ) حاذق الخیری کی زیر صدارت شوریٰ ہمدرد کراچی کا اجلاس گزشتہ روز ہمدرد کارپوریٹ ہیڈ آفس میں ’’سود سے پاک نظام کا نفاذ کیا ایسا ممکن ہے؟‘‘کے موضوع پر منعقد ہوا۔اجلاس میں مہمان مقرر اسلامی مالیاتی امور کے ماہر  مفتی ڈاکٹر محمدوسیع فصیح بٹ  نے  شرکت کی ۔

ہمدرد پاکستان کےتحت سود سے پاک نظام کا نفاذے متعلق اجلاس ہوا۔ ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر محترمہ سعدیہ راشد نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ اس موقع پر جسٹس(ر)حاذق الخیری نے کہا کہ یہ ایک نازک معاملہ ہے جسے اسلام کی تعلیمات اور اقدار کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

ہمدرد پاکستان کی ’’خود کو پہچانو‘‘ کے عنوان سے صافی مہم کا آغاز 

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سود پر مبنی نظام کی وجہ سے معاشی بدحالی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس نظام کی وجہ سے ملک میں مہنگائی میں ناقابل برداشت اضافہ ہوااور اہل وطن کو سخت معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے تجویزدی کہ ملک میں سود سے پاک اقتصادی و معاشی نظام کے نفاذ کے لیے پاکستان سے اسلامی فنانسنگ کے ماہرین وفد کی شکل میں مسلم ممالک کے دورے کریں اور وہاں سود سے پاک اقتصادی ماڈل کو اپنانے اور اُس پر عمل درآمد کے امکانات پر تبادلہ خیال کریں۔

ڈاکٹر محمدوسیع فصیح بٹ نے کہا کہ اسلامی مالیاتی اداروں کے کامیاب کاروباری ماڈل کی بدولت سود پر مبنی نظام کا متبادل سامنے آیا ہے۔اسلامی دنیا میں اسلامی بینکاری میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ مضبوط معیشت کے لیے سود سے پاک نظام اقتصادی اور معاشی ترقی کے لیے زیادہ احسن و کارآمد ہے۔

انہوں نے شوریٰ کے ارکان کو بتایا کہ خلیجی ممالک اور مسلم اکثریتی ممالک میں مضبوط پوزیشن کے باعث اسلامی مالیاتی مارکیٹ کا کل حجم 1 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہوگیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے اسلامی بینکاری ڈویژن نے ۲۰۲۵ء تک کے اپنے پنج سالہ منصوبے میں اسلامی بینکاری کے مارکیٹ شیئر کو ۳۰ فیصد تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے شوریٰ ہمدرد جیسے معتبر فورم کے ذریعے لوگوں کو اسلامی بینکاری اور اسلامی نظام کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ضروری ہے۔

سابق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا کہ یہ ستم ظریفی ہے جو مسلم علماء آج تک سود کی تعریف پر متفق نہیں ہو سکے۔ترقی یافتہ ممالک میں شرح سود بہت کم ہے جس سے افراط زر کو کنٹرول میں رکھا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کے مسئلے کو سود سے پاک معاشی ماڈل اپنانے سے نہیں بلکہ ملکی معیشت کی اصلاح اور صنعت سازی کو فروغ دے کر حل کیا جاسکتا ہے۔اسلام میں  استحصال کی سختی سے ممانعت ہے لہٰذا حکومت چارجز، کرایہ اور منافع کے نام پر جاری عوام کے استحصال کا سنجیدگی سے نوٹس لے۔

سینیٹر عبدالحسیب خان نے کہا کہ کاروباری اداروں کو اپنے کاروباری امور کے مطابق قلیل مدتی اور طویل المدتی فنانس کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزید برآں عالمی مسابقت کا مقابلہ کرنے کے لیے کارپوریٹ اداروں کو اپنے کاروبار ی لاگت بھی کم سے کم رکھنا ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ  اسلامی بینک روایتی بینکوں کے مقابلے زیادہ چارجز وصول کرتے ہیں۔ جس سے کاروباری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔بہ طور مسلمان ہم سب کو سود سے بچنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی بینک کارپوریٹ اداروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے اپنے غیر ضروری چارجز میں کمی لائیں۔

یہ بھی پڑھیے

ملک سے سود پر مبنی نظام کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں، اسحاق ڈار

ابن الحسن رضوی نے کہا کہ سود سے پاک معیشت کا تصور صرف قانون سازی سے حاصل نہیں ہو گا۔ بلیک مارکیٹ، کرپشن اورا سمگلنگ کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہوگی تاکہ سازگار ماحول پیدا ہو۔

اجلاس میں ڈاکٹر ابوبکر شیخ، انجینئرانوار الحق صدیقی، ڈاکٹر امجد جعفری، پروفیسر اخلاق احمد، شیخ محمد عثمان دموہی، کموڈور (ر) سدید انور ملک، کرنل (ر) مختار احمد بٹ اور ہما ​​بیگ نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ تحاریر