غریبوں کی اشیائے ضروریہ کی ایل سیز نہیں کھلیں گی، امیروں کیلئے بی ایم ڈبلیو پاکستان آئیں گی
وفاقی حکومت نے 165 بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کے لیے ایل سیز کھولنے کی اجازت دے دی ، مقامی صنعت کو چلانے والے خام مال کی ایل سیز کھولنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
وفاقی حکومت کا دہرا معیار، لگژری گاڑیوں کے لیے ایل سی کھولنے میں نرمی، مقامی صنعت کے ساتھ سوتیلوں والا سلوک، مقامی صنعت ادویات، گاڑیوں اور الیکٹرونکس سمیت تمام دیگر سامان خام مال کے لیے پریشان، 5 کروڑ کی امپورٹڈ لگژری گاڑی کی بکنگ کا آغاز کردیا گیا۔ معاشی ماہرین نے حکومتی اقدام کو غریب عوام کے ساتھ ظلم قرار دیا ہے۔
وفاقی حکومت نے دہرا معیار اپناتے ہوئے ایک طرف تو مقامی صنعت کے خام مال پر مکمل پابندی عائد کی ہوئی ہے اور دوسری طرف بی ایم ڈبلیو کی آئی سیون امپورٹڈ لگژری گاڑیوں کی ایل سیز کھولی جا رہی ہیں۔ جبکہ ان گاڑیوں کی بکنگ کا آغاز کردیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
تاجروں کا ڈیٹا ایف بی آر اور نادرا سے لیک ہوکر دہشتگردوں کے پاس پہنچ گیا
پی بی سی کا حکومت کو عالمی برادری سے قرضوں پر عائد سود کی معافی کا مشورہ
کار انڈسٹری کے مطابق لگژری گاڑی کی قیمت 2 لاکھ 26 ہزار یورو یعنی 5 کروڑ 47 لاکھ روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔
لگژری گاڑیوں کی بکنگ جنوری اور ڈیلیوری مارچ میں ہوگی۔ 165 لگژری گاڑیوں کے لیے ایل سیز کا گرین سگنل دیتے ہوئے پہلے مرحلے میں 65 لگژری گاڑیوں کی بکنگ ہو چکی ہے۔
دوسرے مرحلے میں 100 لگژری گاڑیوں کی بکنگ کی گئی ہے۔
پاکستان آٹو مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے مطابق ملک کی تین بڑی کار مینوفیکچرز نے پیداوار بند کر رکھی ہے۔ مقامی کار مینوفیکچرز کے خام مال کی ایل سی کھولنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مقامی صنعتوں کی متعلقہ وزارتوں، اسٹیٹ بینک اور وزیراعظم سے کئی اپیل کیں ہیں اور انہیں پاکستان کے بڑے اردو اور انگریزی اخبارات میں شائع بھی کرایا ہے۔ دوسری جانب لگژری گاڑیوں کے لیے 9 ارب سے زائد کی ایل سیز کھولی جا رہی ہیں۔
وزارت صنعت و پیداوار کے حکام نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے یکم جنوری سے ایل سیز کھولنے میں کچھ نرم رویہ اختیار کیا ہے اور اس سلسلے میں ایک "نوٹی فیکیشن” بھی جاری کیا گیا ہے اس "نوٹی فیکیشن” کے تحت بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کی بکنگ کی جا رہی ہے۔
معاشی ماہرین نے حکومت کی جانب سے بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کی ایل سیز کھولنے کے اقدام کو انتہائی غیرذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب میڈیسن بنانے والی کمپنیوں کو ادویات کے لیے خام مال درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ، اور نہ ہی اسپتالوں کو میڈیکل آلات درآمد کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ غریب عوام کو سستی ادویات بھی میسر نہیں ہوں گی تو علاج کے لیے کیا کریں گے ، غریب عوام نواز شریف کی بیٹی کی طرح مریم نواز تو ہے نہیں ، کہ گلے کا آپریشن کروانے کے لیے جنیوا چلے جائے۔
معاشی ماہرین نے حکومت سے ایسے غیرذمہ دارانہ اقدام کو فوری طور پر واپس لینے کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ ایسی اشیاء کی ایل سیز کھولی جائیں جس سے غریب عوام کو سہولت میسر آئے۔ اور مقامی صنعت کو فروغ حاصل ہو، کیونکہ مقامی صنعت چلے گی تو لوگوں کو روزگار ملے گا۔