درآمدی بل بچانے کیلئے کیا گیا بریک ڈاؤن، معیشت کو 80 ارب روپے میں پڑا

نیوز 360 کی تحقیقاتی رپورٹنگ اور ملک بھر سے کیے گئے سروے کے مطابق حکومت کی ناقص پالیسیز بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن کی وجہ بنی۔

درآمدات کا گلہ گھونٹنے کی حکومتی ہٹ دھرم پالیسی نے بجلی کا دھڑن تختہ کردیا، بجلی کی پیداوار 7 ہزار میگاواٹ سے کم ہوگئی اور بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن ہوگیا، معیشت اور عوام کو مزید 80 ارب روپے کا نقصان ہوگیا۔

وفاقی حکومت کی ہٹ دھرمی اور وفاقی وزرا کی اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے اور ہر شعبے کا ارسطو بننے کی روش نے ملک میں بجلی کا ایک اور بڑا بریک ڈاؤن کر ڈالا۔ وفاقی وزرا کی فوج ظفرموج بجلی کے بریک ڈاؤن پر پہلے کئی گھنٹے تک بے بس رہی۔

یہ بھی پڑھیے

معیشت کا ایک اور مشکل دن: ڈالر مزید مہنگا، سونا تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

کنگال حکومت عیاش حکمران: چھ ماہ میں 1.2 ارب ڈالر کی لگژری گاڑیاں درآمد کرلیں

نیوز 360 کی تحقیقاتی رپورٹنگ اور ملک بھر سے کیے گئے سروے کے مطابق حکومت کی ناقص پالیسیز بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن کی وجہ بنی، حکومت نے ایل سیز کا گلہ اس حد تک گھونٹ دیا کہ ضروری فرنس آئل ، ڈیزل ، ایل این جی اور توانائی کے دیگر شعبہ جات کے پرزوں کا حصول ناممکن ہوگیا۔  پرزہ جات اور ضروری مشینری کی امپورٹ بند ہونے سے بجلی گھر مرمت نہ کرسکے اور بند ہوتے گئے۔

23 جنوری کو اس حکومت کے دور میں دوسرے بڑے بریک ڈاؤن کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ بجلی پیداوار انتہائی کم ہوگئی۔

23 جنوری کی صبح  بجلی کی پیداوار 7 ہزار میگاواٹ سے کم تھی، بجلی کا شارٹ فال 6 ہزار میگاواٹ واٹ تک کا تھا ، پن بجلی کی پیداوار میں 90 فیصد کمی واقع ہوئی ، تھرمل بجلی کی پیداوار 70 فیصد کم تھی ، ملک بھر کے 12 سے زائد پاور پلانٹ فنی خرابیوں کے باعث بند ہیں۔ گدو ، جام شورو ، مظفر گڑھ کے پاور پلانٹس فنی خرابیوں کے باعث بند پڑے ہیں۔

ذرائع کے مطابق سونے پر سہاگہ یہ کہ شہرہ آفاق نیلم جہلم پاور پراجیکٹ گزشتہ آٹھ ماہ سے فنی خرابی کی وجہ سے بند پڑا ہے ، یعنی 969 میگاواٹ ماحول دوست بجلی بند پڑی ہے۔

نندی پور، حویلی بہادر شاہ، بھکھی پاور پلانٹس ایندھن کی کمی کی وجہ سے 30 فیصد بجلی پیدا کررہے ہیں، اتوار کے روز ہلکی بارش کی وجہ سے پیر کی صبح تک قائد اعظم سولر سے بجلی کی پیداوار نہ ہونے کے برابر تھی۔

وینڈ پاور پلانٹ کی پیداوار بھی انتہائی کم تھی۔ جب اتنا لوڈ کم تھا تو 23 جنوری کی الصبح گدو پاور کی فریکوئنسی کم ہونے سے شمال کی جانب بجلی کا لوڈ غیر متوازن ہوا، غیر متوازن لوڈ سے جنوبی حصے میں تھرمل پاور پلانٹس بند ہوگئے۔

ملک کے جب 12 بڑے پاور پلانٹس بند پڑے ہوں تو اگر ہنگامی بنیادوں پر پیداوار بڑھانے کی کوششیں کی گئیں تو بجلی کے بریک ڈاون پر ایک اور بریک ڈاون ہوا اور  کم پیداوار کے باعث  لوڈ غیر متوازن  ہوا اور  سسٹم بار بار ٹرپ کرنے لگا۔

این ٹی ڈی سی کی سسٹم کو بحال کرنے کی کوششیں جاری رکھیں لیکن نہ مرمت تھی، نہ ایندھن، نہ سولر اور نیلم جہلم جیسے پراجیکٹ سے بجلی کی حصول اس لیے ‏ چند منٹ بحالی کے بعد ارسطو کابینہ کی ذہانت اور دور اندیشی کا بوجھ نہ اٹھا سکا اور پاور سسٹم دوبارہ ٹرپ کر گیا۔

ماضی میں عمران خان کی حکومت کے دور میں بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن پر بھاشن دینے والی حکومت کو کئی گھنٹوں کے بعد صورت حال کی سنگینی کا ادارک ہوا اور بجلی کی پیداوار بتدریج بڑھائی گئی، پھر یہ انکشاف ہوا کہ بجلی کی پیداوار 8 ہزار میگا واٹ ہوگی تو لوڈ میں توازن پیدا ہو گا۔ اس لوڈ کو متوازن کرنے میں ماہرین وزرا کی ٹیم نے فیصلے کرنے میں  8 گھنٹے لگا دیئے۔

نیوز 360 کی تحقیقات اور سروے کے مطابق بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن کے ‏8 گھنٹوں میں ملکی معیشت کو 80 ارب روپے کا نقصان ہوا، ‏8 گھنٹے ریاست کے امور حکومت بند رہے، اسپتالوں میں علاج واجبی رہا ، نادرا ، پاسپورٹ اور مختلف ڈیوٹیز اور ٹیکسز جمع کرانے والے اداروں سمیت سرکاری ایکسائز کے ادارے فیس جمع کرنے کے لیے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے۔

وفاقی اور صوبائی سیکرٹیرٹ میں کام بند رہا اور ملازمین دھوپ میں بیٹھے ، ماہر وزرا کی فوج کی کارکردگی پر بحث کرتے رہے۔ حالات اس نہج تک پہنچے کہ سپریم کورٹ میں بھی کام متاثر ہوا۔

ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے  ٹیکسٹائل سیکٹر میں 20 ارب روپے سے زائد کے آرڈر متاثر ہوئے۔

‏6 ہزار میگاواٹ بجلی مسلسل 8 گھنٹے تک سسٹم سے غائب رہی اور ملک بھر میں جنرل انڈسٹری 80 فیصد بند رہی۔ ‏ کمرشل اور زرعی سرگرمیاں بند ، فیول کی کھپت بڑھ گئی۔ ٹیلی کام سیکٹر سمیت  مواصلات کا نظام بھی بری طرح سے متاثر ہوا۔‏ انٹرنیٹ سروس متاثر اور موبائل ٹاور کا کام ٹھپ رہا، ملک بھر کی یونیورسٹیز میں امتحانات کی تیاری کرنے والا طلبا دن بھر پریشان رہے۔

عوام ماضی میں عمران خان کی حکومت میں بڑے بریک ڈاؤن پر نااہلی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ماہر وزرا کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بناتے رہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی پرانی تقریر ٹرینڈ کرتی رہی۔

متعلقہ تحاریر