اداکارہ مہربانو نے ہم جنس پرستی کو جائز قرار دے دیا

اداکارہ کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں خواتین پر تشدد کرنا برائی ہے لیکن ہم جنس پرستی میں کوئی برائی نہیں ہے۔

پاکستانی اداکارہ مہربانو نے ہم جنس پرستی کی حمایت کردی ہے۔ اداکارہ کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں کسی مرد کا دوسرے مرد سے محبت کرنا جائز ہے۔

خواتین کے عالمی دن پر کیے جانے والے عورت مارچ میں ہر سال کوئی نہ کوئی تنازع ضرور سامنے آتا ہے۔ میرا جسم میری مرضی کے نعرے کو ہر کوئی اپنے انداز سے دیکھتا ہے۔ پاکستانی اداکارہ مہربانو نے اس نعرے کی کچھ مختلف تعریف بیان کردی ہے۔ اداکارہ نے مظاہرے میں ‘میرا جسم میری مرضی’ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے ہم جنس پرستی کی حمایت کردی۔ مہربانو نے کہا ہے کہ ہم جنس پرستی کوئی برائی نہیں ہے۔ ایک مرد کا دوسرے مرد سے محبت کرنا بالکل جائز ہے۔

اداکارہ کی یہ ویڈیو بظاہر نئی نہیں ہے بلکہ یہ ایک سال پرانی ہے یعنی یہ گذشتہ برس عورت مارچ کی ہے۔

اس بات میں کوئی 2 رائے نہیں کہ ہم جنس پرستی ہمارے ملکی قوانین کے خلاف ہے جبکہ دین اسلام میں بھی اسے جائز قرار نہیں دیا گیا ہے۔ اداکارہ نے اب تک وضاحت نہیں دی ہے کہ انہوں نے یہ بیان کس تناظر میں دیا؟ اگر تو وہ واقعی ہم جنس پرستی کو جائز سمجھتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ وہ پاکستان کے قانون اور دین سے اختلاف کررہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر مہربانو کا یہ بیان وائرل ہوگیا ہے اور انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا کہ پاکستان کی عوام اسے کسی بیان کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس حوالے سے ہماری ثقافت ہمیں اسے کسی کام کو کرنے کی ترغیب نہیں دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سائرہ یوسف اور بلال اشرف کی تصویر پر نئی بحث

ٹوئٹر پر خواتین صارفین کی جانب سے بھی مہربانو کے اس بیان کو آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے مہربانو مجرے کو رقص کی مشکل ترین قسم قرار دے چکی ہیں۔ اداکارہ نے سوشل میڈیا پر جاری ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ مجرا برصغیر کے مسلمانوں کی ایجاد کردہ ہے۔ اگر اس سے آپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک خودمختار عورت کے اپنے جسم پر حق کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔

دنیا کے کئی ممالک میں ہم جنس پرستی کو جائز قرار دیا جا چکا ہے اور جنسی رغبت کے معاملے میں ہر شخص کی اپنی ترجیحات اور سوچ ہو سکتی ہے لیکن ایسے ملک میں جہاں نا قانون اور نا ہی اکثریت کا مذہب اِس کی اجازت دیتا ہو وہاں کسی متنازع چیز کو جائز قرار دینا ضرور منفی رد عمل کا سبب ہو سکتا ہے۔

اِس کے علاوہ عورت مارچ میں اِس قسم کے بیانات عورتوں کے حقوق کی آواز کو تنازعات میں الجھا دیتے ہیں اور وہ آواز جو عورتوں کے مساوی حقوق کے لیے بلند کی جاتی ہے وہ اِن متنازع بیانات کی وجہ سے متنازع ہو جاتی ہے۔

متعلقہ تحاریر