فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیا تو باقی کیسے گرائیں گے؟ چیف جسٹس

فوج ملک کے دفاع کیلئے  ہے  کاروبار  کیلئے نہیں ،فوج جن قوانین کا سہارا لیکر کمرشل سرگرمیاں کرتی ہے وہ غیرآئینی ہیں، سپریم کورٹ

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے  ریمارکس دیے ہیں کہ کراچی میں تمام غیر قانونی عمارتیں مسمار کروا رہے ہیں،ایسا نہیں ہو سکتا کہ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیں، فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیا تو باقی کو کیسے گرائیں گے؟

سپریم کورٹ میں   کنٹونمنٹ لینڈ پر کمرشل سرگرمیوں کیخلاف کیس کی سماعت میں عدالت نے سیکریٹری دفاع  کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیدیا۔ اٹارنی جنرل کی استدعا پر عدالت نے رپورٹ واپس لینے کی اجازت دیدی ۔عدالت نے  کالا پُل کے ساتھ والی دیوار اور گرینڈ کنونشن ہال آج ہی گرانے کا حکم دےدیا۔عدالت نے سیکریٹری دفاع  سے 4 ہفتے میں عملدرآمد رپورٹ طلب کرلی۔

یہ بھی پڑھیے

کبھی کسی میں ہمت نہیں ہوئی کہ مجھ سے فیصلے کروائے،چیف جسٹس

سارے شہر کی مشینری اور عملہ لے کر جاؤ اور نسلہ ٹاور گراؤ،چیف جسٹس کا حکم

 

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہاکہ  فوج ملک کے دفاع کیلئے  ہے  کاروبار  کیلئے نہیں ،سینما،شادی ہال اور گھر بنانا دفاعی سرگرمی ہے تو پھر دفاع کیا ہوگا،یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں پورے ملک کا یہی حال ہے۔ اٹارنی جنرل صاحب فوج کو قانون کون سمجھائے گا؟ فوج کیساتھ قانونی معاونت نہیں ہوتی وہ جو چاہتے ہیں کرتے رہتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فوج جن قوانین کا سہارا لیکر کمرشل سرگرمیاں کرتی ہے وہ غیرآئینی ہیں، کارساز میں سروس روڈ بھی بڑی بڑی دیواریں تعمیر کرکے اندر کر دی گئیں،کنٹونمنٹ زمین کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، کارساز اور راشد منہاس روڈ پر اشتہارات کیلئے بڑی بڑی دیواریں تعمیر کر دی ہیں،پرل مارکی اور گرینڈ کنونشن ہال ابھی تک برقرار ہیں، کالاپُل کیساتھ والی دیوار اور گرینڈ کنونشن ہال آج ہی گرائیں۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ فیصل بیس پر اسکول، شادی ہال بھی بنے ہوئے ہیں،کوئی بھی شادی کا مہمان بن کر رن وے پر بھاگ رہا ہوگا، کہا جا رہا ہے کہ مسرور اور کورنگی ایئر بیسز بند کیے جا رہے ہیں،ایئر بیس بند کرکے وہاں کمرشل سرگرمی شروع کرینگے،کنٹونمنٹ زمین دفاعی مقاصد پورا ہونے پر حکومت کو واپس کرنا ہوتی ہے، حکومت زمین انہیں واپس کرے گی جن سے ایکوائر کی گئی ہو۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ سمجھ نہیں آتا فوج کو کاروباری سرگرمیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟  فوج کو معمولی کاروبار کیلئے اپنے بڑے  مقاصد پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے، فوج کو اپنے ادارے کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں پورے ملک کا یہی حال ہے،کوئٹہ اور لاہور میں بھی دفاعی زمین پر شاپنگ مالز بنے ہوئے ہیں،سمجھ نہیں آ رہی وزارت دفاع کیسے ان سرگرمیوں کو برقرار رکھے گی، اعلیٰ فوجی افسران کو گھر دینا دفاعی مقاصد میں نہیں آتا،فوج ریاست کی زمین پر کمرشل سرگرمیاں کیسے کر سکتی ہے؟ ریاست کی زمین کا استحصال نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ راتوں رات گزری روڈ پر فوج نے بہت بڑی عمارت کھڑی کر دی ہے، ایک ریٹائرڈ میجر نے گلوبل مارکی کیلئے زمین کیسے لیز پر دے سکتا ہے؟ ریٹائرڈ میجر کا کیا اختیار ہے کہ دفاعی زمین لیز پر دے سکے، فوج نے ریتائرڑد میجر کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا،گلوبل مارکی سے روزانہ کروڑوں روپے کمائے جا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ  سینما، شادی ہال اور گھر بنانا اگر دفاعی سرگرمی ہے تو پھر دفاع کیا ہوگا؟؟چند لاکھ میں فوجی افسران نے زمین بیچی اب وہ گھر کروڑوں کے ہیں،جہاں چھوتی سی جگہ دیکھتے ہیں وہاں اشتہار لگا دیتے ہیں،اتنی بڑی بڑی دیواریں بنانے کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ  فوجی سرگرمیوں کیلئے گیریژن اور رہائش کیلئے کنٹونمنٹس ہوتے ہیں،سی ایس ڈی پہلے صرف فوج کیلئے تھا اب وہاں ہر بندا جا رہا ہوتا ہے، کنٹونمٹس کی تمام زمین اصل حالت میں بحال کرنا ہوگی،فوج کی تمام رولز اور قوانین کا آئین کے تھر وجائزہ لینگے،فوج ملک کے دفاع کیلئے ہے نہ کی کاروبار کرنے کیلئے۔عدالت نے سیکرٹری دفاع سے چار ہفتے میں عملدرآمد رپورٹ پیش طلب کر لی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ سے آج دو بڑے فیصلے آئے۔کنٹونمنٹ اراضی کیس میں سخت ریمارکس کے علاوہ عدالت نے آج 16دسمبر 2020سے گرفتار رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی ضمانت بھی منظور کرلی ہے۔

متعلقہ تحاریر