ایمپریس مارکیٹ آپریشن نےلکھ پتی دکاندار کو چوکیدار بنادیا
نومبر2018میں کیے گئے آپریشن کے نتیجے میں تاجدار خان سمیت کئی صاحب ثروت دکاندار ایسے متاثر ہوئے کہ دوبارہ سنبھل نہیں پائے
سپریم کورٹ کے احکام پر کیے گئے آپریشن نے کراچی کی ایمپریس مارکیٹ کو اصل حالت میں بحال تو کردیا مگرنومبر2018میں کیے گئے اس آپریشن کے نتیجے میں کئی صاحب ثروت دکاندار ایسے متاثر ہوئے کہ دوبارہ سنبھل نہیں پائے۔
پاکستانی صحافی علیزے کوہاری ایمپریس مارکیٹ کے متاثرہ دکانداروں میں شامل تاجدار خان کی دردناک کہانی سامنے لے آئیں۔ 57 سالہ تاجدار خان بھی انہی متاثرین میں سے ایک ہیں جو انسداد تجاوزات آپریشن سے قبل ایمپریس مارکیٹ میں اپنی پشاوری چپلوں کی دکان چلاتے تھے لیکن اب اسی مارکیٹ میں چوکیداری کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کراچی کے چار اضلاع میں تجاوزات کے خلاف بڑی کارروائیاں
لیاقت آباد میں تجاوزات کے خلاف آپریشن، دکانداروں کا سامان ضبط
It’s been 3+ years since the shopkeepers of Karachi’s Empress Market had their livelihoods upended. Where are they now? Over the years, I kept in touch with one of them. For @GuernicaMag, one of the most heartbreaking stories I’ve ever reported. https://t.co/VNvOSMDi1i
— Alizeh Kohari (@AlizehKohari) January 12, 2022
کراچی کی تاریخی ایمپریس مارکیٹ کی تعمیر 1884میں شروع ہوئی اور 1889 میں تکمیل کو پہنچی۔ایمپریس مارکیٹ سے قبل اس جگہ ایک پھانسی گھاٹ واقع تھا جہاں 1857 کی جنگ آزادی کے موقع پر بغاوت کرنے والے برطانوی فوج کے مقامی سپاہیوں کو توپ کے دہانے پر کھڑا کرکے موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا۔بعدازاں حکومت برطانیہ کو اس خوف نے آگھیرا کہ مقامی افراد یہاں ان سپاہیوں کی یادگار نہ تعمیر کردیں تو اس نے اس زمین پر ملکہ وکٹوریا کے نام سے مارکیٹ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔
علیزے کوہاری کے مطابق تاجدارخان اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس دن اتوار کی وجہ سے ہفتہ وار چھٹی تھی۔پولیس کی بھاری نفری نے علی الصباح ہی مارکیٹ کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ کئی دکانداروں نے سرکاری دستاویزات کی مدد سے سرکاری حکام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ دکانیں انہیں بلدیہ عظمیٰ نے الاٹ کی ہیں جبکہ کئی دکانیں ثقافتی ورثے میں شامل ہیں تاہم حکام نے کسی کی نہیں سنی۔
تاجدار خان بتاتے ہیں کہ وہ گھر پر موجود تھے کہ انہیں پڑوسی دکاندار نے آپریشن کی اطلاع دی۔وہ شہر کے مضافات میں رہائش پذیر تھے جہاں سے دکان پر پہنچنے میں انہیں 2 گھنٹے لگ گئے۔تاجدار خان بتاتے ہیں کہ وہ دکان پر پہنچے تودوپہر ہوچکی تھی اور مارکیٹ کا سارا نقشہ ہی بدل چکا تھا۔وہاں صرف ان کی دکان ہی سلامت کھڑی تھی جبکہ باقی دکانیں بلڈوزرز کی مدد سے گرائی جاچکی تھی لیکن پھر اس کی نظروں کے سامنے بلڈوزر نے اسکی دکان بھی ڈھادی۔ مگر اس سے قبل ہی ان کی دکان کا صفایاکردیا گیا تھا اور اس موجود ہاتھ سے سلی پشاور چپل کی 72 جوڑیوں سمیت سب کچھ لوٹا جاچکا تھا۔تاجدار خان کے ہاتھ صرف تالہ لگا ایک صندوق ہی آیا تھا۔
اس دن بلدیہ عظمیٰ کی مشینری خاموش ہوئی تو اس وقت تک1700 دکانیں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں ۔محققین کے مطابق اس آپریشن کے نتیجے میں تقریباً 2 لاکھ افراد بیروز گار ہوئے جن میں تاجدار خان بھی شامل ہیں جواب اسی مارکیٹ میں میوہ جات فروخت کرنے والے اپنے پڑوسی کی دکان پر چوکیداری کرنے پر مجبور ہیں۔
تاجدار خان بتاتے ہیں کہ ان کے دوست صابر کو انہی جیسے حالات کا سامنا ہے۔ دکان گرائے جانے کے بعد صابر کے والد اور بہن اس صدمے اورپریشانی سے انتقال کرگئے۔تاجدار بتاتے ہیں کہ حکومت نے کئی متاثرہ دکانداروں کو متبادل جگہیں فراہم کی ہیں ۔انہیں اور ان کے دوست صابر کو بھی کمپلیکس نما ایک متروکہ عمارت میں 16 مربع گز کی کمرشل جگہ فراہم کی ہے جہاں کتے اور بلیاں آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں اور ساتھ ہی سیوریج کا نالہ بھی بہہ رہا ہے۔
تاجدار کے مطابق مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچھلے 30 سالوں میں یہاں کوئی کاروبارکامیاب ہوتا نہیں دیکھا۔تاجدار بتاتے ہیں کہ عمارت اطراف پرنٹنگ پریس اور شادی کے کارڈ فروخت کرنے والوں کی دکانیں ہیں، ایسے میں میں کوئی وہاں آکر جوتے کیوں خریدے گا؟