اقرار الحسن کو آئی بی افسر کیخلاف اسٹنگ آپریشن مہنگا پڑگیا،بہیمانہ تشدد

ٹیم سرعام کو دفتر میں 3 گھنٹے محبوس رکھا گیا،برہنہ کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا،نازک اعضا پر کرنٹ لگایا گیا،اقرار الحسن کے سر پر 8سے 10ٹانکے آئے،وزیراعظم کا نوٹس، 5 آئی بی افسران معطل


اے آر وائی نیوز کے معروف پروگرام سرعام کے اینکر پرسن اقرار الحسن اور ان کی ٹیم کوانٹیلی جنس بیورو(آئی بی) کے مبینہ رشوت خور افسر کیخلاف اسٹنگ آپریشن مہنگا پڑگیا۔آئی بی کے افسران نے مبینہ طور پر ٹیم سرعام کو دفتر میں محبوس کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بناڈالا۔

اے آر وائی نیوز نے دعویٰ کیا ہے  کہ پروگرام سرعام کی ٹیم نے آئی بی کے رشوت خور افسر کے خلاف اسٹنگ آپریشن کیا جو محکمے کے اعلیٰ افسران کو بالکل بھی برداشت نہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

اقرار الحسن کے خلاف ٹرینڈ کیوں چل رہا ہے؟

اقرار الحسن اور فہد مصطفیٰ کا نیا سوشل میڈیا ٹرینڈ

سرعام کی ٹیم کے مطابق آئی بی کا افسر نادرا کی تصدیق کیلئے گھروں میں آکر رشوت لیتا تھا، ثبوت کے ساتھ شکایت کیلئےآئی بی آفس جانے والی ٹیم سرعام کو یرغمال بنالیا گیا۔

اقرار الحسن نے الزام عائد کیا ہے کہ آئی بی کا انسپکٹر کاشف دفتر کے باہر کھڑا ہوکر 2 مرتبہ رشوت لے چکا تھا جبکہ تیسری مرتبہ رشوت لے رہا تھا جس کے ثبوت کے ساتھ شکایت لیکر آئی بی افسران کے پاس پہنچے تو انہوں نے شکایت سننے کے بجائے ٹیم سرعام کو یرغمال بنالیا۔اقرار الحسن نے الزام عائد کیا کہ  رشوت خوری سے متعلق سوالات پوچھنے پر سرعام کی ٹیم کو برہنہ کرکے بہیمانہ تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ اور  ان کی ٹیم کے ارکان  شدید زخمی ہوگئے اور ان کے سر پر 8 سے 10 ٹانکے آئے ہیں۔

اقرار الحسن نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی بی کے افسران نے انہیں اور ان کی ٹیم کو برہنہ کرکے وڈیوز بنائیں ،3 گھنٹے تک برہنہ حالت میں محبوس رکھ کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور تمام کارروائی کی ویڈیوز بھی بنائی گئیں۔اقرار الحسن کے مطابق آئی بی  کے افسران نے کہا اگر باہر جاکر زبان کھولی تو ٹیم سرعام کی برہنہ حالت میں بنائی گئی وڈیوز جاری کردی جائیں گی۔

اقرار الحسن نے الزام عائد کیا ہے کہ  اہلکاروں نے صرف تشدد پراکتفا نہیں کیا بلکہ ایک اعلیٰ افسر کی ہدایت پر ٹیم سرعام کے کچھ ارکان کے نازک اعضا پرکرنٹ بھی لگایا گیا، جس کے باعث وہ شدید تکلیف میں مبتلا رہے اور اعضا سے خون جاری ہوگیا۔انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم کے آڈیو انجینئر جو گردے کے مریض ہیں انہیں گردے پر ضربیں لگائی گئیں جس کی وجہ سے وہ درد سے تڑپتے رہے لیکن کسی نے رحم نہیں کھایا۔

اقرار الحسن نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا تمام معاملے کا بخوبی علم ہونے کے باوجود سربراہ آئی بی سندھ آزادخان نے اسے روکنےکی ذرا سے بھی کوشش تک نہ کی۔بعدازاں وزیراعظم ہاؤس نے معاملے کا فوری نوٹس لیا۔ جس کے بعد وفاقی حکومت نے آئی بی کے پانچ افسران کو معطل کردیا۔ڈائریکٹر آئی بی سید رضوان سمیت پانچ افسران کی معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ افسران میں محبوب علی، انعام علی، رجب علی اور خاور شامل ہیں۔

اس حوالے سے ٹیم سرعام کے سربراہ اور پروگرام کے میزبان اقرار الحسن نے بتایا کہ ہم نے ہرقسم کا ظلم برداشت کیا، ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر کئی گھنٹے حبس بےجا میں رکھا گیا۔انہوں نے بتایا کہ ہم آئی بی افسران کی کرپشن کو بےنقاب کررہے تھے، جس کی پاداش میں ہمیں زخمی کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم کے ارکان تشدد کے دوران بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کی جدوجہد جاری رہے گی۔

بعدا زاں ٹوئٹر پر جاری کردہ ایک وڈیو میں اقرار الحسن نے بتایا کہ ان کا کندھا اپنی جگہ سے ہل  گیا ہے جبکہ ایک پسلی بھی ٹوٹی ہے اور دل پر کرنٹ لگنے کے باعث ای سی جی بھی صحیح نہیں آیا ہے، ڈاکٹرز نے اسپتال میں رہنے کا مشورہ دیا ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ وہ گھر پر زیادہ پرسکون رہ سکیں گے۔

ٹیم سرعام پر تشدد کے بعد ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ اقرار الحسن ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ٹوئٹر صارفین نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اقرار الحسن اور ان کی ٹیم کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔

اے آر وائی میڈیا گروپ کے مالک سلمان اقبال نے اقرار الحسن اور ان کی ٹیم کے ارکان پر  وحشیانہ حملے اور تشدد کی شدید مذمت  کی ہے۔سلمان اقبال نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ اقرار الحسن اور ان کی ٹیم کو  تھرڈ ڈگری ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا۔ فوری ایکشن لینے پروزیراعظم  کا شکریہ۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ معاملے کی تحقیقات کی جائیں،  قصورواروں کو معطل  کرنا کافی نہیں انہیں سزا بھی دی جائے ۔

سینئر اینکر پرسن وسیم بادامی اپنےساتھی اقرار الحسن پر تشدد کی اطلاع ملتے ہی عباسی اسپتال پہنچے اور صبح تک اسپتال میں رہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ اقرار پر اس تشدد کا ذمہ دار کون ہے ؟جب عام آدمی کے مقابلے میں بااثر سمجھے جانے والے افراد کے ساتھ یہ سب ہوتا ہے تو عام آدمی کے ساتھ کیا نہیں ہوتا ہوگا ؟مطلب تشدد کرنے والوں کو بھی یقین تھا کہ ان کا جو دل چاہے گا کریں گے اور کوی ان کا کچھ نہیں بگاڑُسکتا۔

معروف میزبان اور رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین نے اپنے مذمتی ٹوئٹ میں لکھا کہ میں شدید غمگین اور غصے میں ہوں۔اقرار الحسن کے ساتھ بدترین سلوک اور غیر اخلاقی سلوک قابل برداشت نہیں بلکہ قابل مذمت اور شرمناک ہے۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے واقعے کا نوٹس لینے کی اپیل بھی کی۔

اداکارہ مشی خان نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اپنے وڈیو پیغام میں کہا کہ آج مجھے دلی دکھ اور صدمہ پہنچا ہے ، اقرار الحسن  اپنی جان داؤ پر لگاکر کرپٹ عناصر کا پردہ فاش کرتے ہیں ،ایک مشہور آدمی کو  اس قدر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے تو عام آدمی کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا، عمران خان صاحب نے ملوث افسران کو معطل تو کردیا ہے لیکن کیا اس ملک میں کبھی کسی مجرم،درندے اور  ناانصافی  کرنے والے کو سزا بھی ملے گی؟قندیل بلوچ کا قاتل رہا ہوگیا، ظاہر جعفر کا کیس لٹکا جارہا ہے ،کسی درندے کسی مجرم کو کبھی سزا ملتی نہیں۔انہوں نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اتنے عرصے کرپشن ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں  لیکن اقرا ر الحسن نے ایک کرپٹ بندے کو پکڑا تو اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنا گیا ہے۔

سینئر صحافیوں نعمت خان ،فیض اللہ خان اور زین خان نے بھی اقرار الحسن پر تشدد کے واقعے شدید الفاظ میں مذمت کی۔

متعلقہ تحاریر