کامسیٹس یونیورسٹی میں انگریزی کے پرچے میں بیہودہ سوال پوچھنے والا استاد برطرف

بی ای الیکٹریل کے پہلے سمسٹر کے انگریزی کے پرچے میں استاد نے بہن بھائی کے جنسی تعلق کی بیہودہ کہانی بیان کرتے ہوئے طلبہ سے اس پر 300 الفاظ کا مضمون لکھنے کو کہا تھا، انتظامیہ نے معاملے کا علم ہونے پر استاد کو فارغ کردیا،وزارت سائنس و ٹیکنالوجی معاملے کا نوٹس لے چکی، پرچہ سوشل میڈیا پر وائرل

کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد (سی یو آئی) نے انگریزی کے پرچے میں بیہودہ سوال شامل کرنے والے استاد کو برطرف کردیا۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے مراسلے کے ذریعے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو بیہودہ حرکت میں ملوث استاد کو فارغ کرنے کے فیصلے سے آگا کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مستحق طلبہ کی فیسوں کا معاملہ: نمل یونیورسٹی اور پاکستان بیت المال میں معاہدہ طے پاگیا

نوجوان نے سندھی ادب کا 7 جی بی کا ڈیٹا انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردیا

سوشل میڈیا پر زیر گردش پرچے میں دیکھاجاسکتا ہے بی ای الیکٹرل کے پہلے سمسٹر کے انگریزی کے پرچے میں طلبہ  کو بہن بھائی کے درمیان جنسی تعلق کی بیہودہ تخیلاتی کہانی بیان  کرتے ہوئے  سوال کیا گیا تھا کہ  ’بتائیے کہ کیا دونوں نے جو کام کیا وہ درست تھا، اپنے جواب کے لیے مناسب دلائل بھی دیجیے اور اپنے مشاہدے کی حد تک کچھ مثالیں بھی دیجیے“۔طلبہ کو اس بیہودہ موضوع پر 300 الفاظ کا مضمون لکھنے کو کہا گیاتھا۔

 

 روزنامہ ڈان کے مطابق  یونیورسٹی انتظامیہ نے  وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو مطلع کیا ہے کہ انگلش کمپوزیشن کے امتحان میں متنازع سوال کرنے والے فیکلٹی ممبر کی خدمات ختم کر دی گئی ہیں۔

ڈان کے پاس 2 فروری کو دستیاب ایک خط کے مطابق  یونیورسٹی انتظامیہ نے19جنوری کو ارسال کردہ خط میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے حکام کو آگیا ہے کہ مذکورہ استاد کے اقدام پر فوری کارروائی کرتے ہوئے اسے 5جنوری 2023 کو ہی برطرف کیا جاچکا ہے اور مذکورہ استاد کو بلیک لسٹ بھی کیاجاچکا ہے ۔

 رابطہ کرنے پر ایڈیشنل رجسٹرار نوید احمد خان نے تصدیق کی کہ بی ای ای انگلش کمپوزیشن پیپر کے طلبہ  سے ایک انتہائی قابل اعتراض سوال پوچھا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ریکٹر نے اگلے دن ایک میٹنگ بلائی اور فیکلٹی ممبر سے کہا کہ وہ طلبا سے اس طرح کے  احمقانہ سوال  پوچھنے کے پیچھے کیا مقصد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیکلٹی ممبر نے اپنی غلطی تسلیم کی اوریونیورسٹی نے ان کی خدمات ختم کر دیں، ہم اور کیا کر سکتے ہیں؟اس کی خدمات ختم کر دی گئی ہیں اور کوئز دوبارہ لے لیا گیا ہےمذکورہ استاد نےیہ سوال گوگل سے چوری کیا تھا۔

 ایک فیکلٹی ممبر نے کہا کہ مذکورہ واقعہ ’’انتہائی شرمناک تھا اور اس نے یونیورسٹی کے امتحانی نظام کو بھی بے نقاب کیا‘‘۔

انہوں نے کہا کہ”محکمہ امتحانات اور متعلقہ محکمہ اس سوال سے کیوں غافل رہے اور طلباء سے اس طرح کا سوال کیوں پوچھا گیا؟” انہوں نے مزید کہا کہ جب طلباء نے یہ مسئلہ اٹھایا تو یونیورسٹی کی انتظامیہ حرکت میں آگئی“۔فیکلٹی ممبر نے شبہ ظاہر کیا کہ وزارت کی جانب سے واقعے کا نوٹس لینے کے بعد لیکچرر کی خدمات ختم کی گئیں۔

تاہم ایڈیشنل رجسٹرار نے کہا کہ فیکلٹی ممبر کو 5 جنوری کو برطرف کیا گیا تھا جبکہ وزارت نے 19 جنوری کو نوٹس لیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی کا جواب 2 فروری کو وزارت کو جمع کرایا گیا تھا۔

دریں اثنا کومسیٹس یونیورسٹی کا مذکورہ پرچہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا جس کے بعد ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ کامسیٹس ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔سوشل میڈیا صارفین نے یونیورسٹی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

معروف کالم نگار آصف محمود نے سب سے پہلے یہ معاملہ اٹھایا۔ بعدازاں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مذکورہ استاد کیخلاف ایکشن لیے جانے کی تصدیق پر انہوں نے اپنی فیس بک پوسٹ ڈیلیٹ کردی ۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق  احمد خان نے یونیورسٹی کے استاد کی اس حرکت پاکستان کے خاندانی اور تعلیمی نظام پر ڈرون حملہ قرار دےدیا

متعلقہ تحاریر